بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

قرض پر نفع کمانے کا ایک حیلہ


سوال

زید کو ایک لاکھ روپے کی ضرورت ہے اس نے خالد سے قرض مانگا لیکن خالد ویسے قرضہ دینے کے لیے تیار نہیں ہے، وہ چاہتا ہے کہ میں بھی کچھ کمائی کر لوں، اس کا طریقہ دونوں نے باہمی رضامندی سے یہ اختیار کیا کہ دونوں حضرات موٹرسائیکل  کی دکان پر جاتے ہیں اور خالد دکان سے ایک موٹر سائیکل نقدپر ایک لاکھ روپے کی خریدتا ہے اور وہیں کھڑے کھڑے زید کو چھ مہینے یا سال کے وقت پر ایک لاکھ چالیس ہزار پر بیچ دیتا ہے اور اور آپس میں یہ معاہدہ لکھ لیا جاتا ہے، پھر چونکہ زید کو موٹرسائیکل کی ضرورت نہیں تھی بلکہ رقم کی ضرورت تھی اس لئے وہیں پر قبضےکرکے دکان والے  کے حوالے کر دی جاتی ہے۔اور یہ خریدوفروخت کا معاملہ اتفاقا نہیں ہوتا بلکہ ایک دوسرے کو سمجھا کر کیا جاتا ہے۔اور یہ باقاعدہ موٹر سائیکل بیچنے والوں کا کاروبار بن گیا ہے اگرچہ  زبانی طور پر دوسری جگہ بیچنے کے بارے میں کہا جاتا ہے لیکن عملی طور پر اس طرح نہیں ہوتا،اب پوچھنا یہ ہے کہ کیا اس طرح کا کاروبار کرنا جائز ہے یا نہیں؟

جواب

صورت مسئولہ میں ذکر کردہ طریقہ جس میں خالد دکان سے نقد خرید کر زید کوادھار پر نفع کے ساتھ فروخت کرتا ہےاور زید اسی دکاندار کو نقد پر فروخت کردیتا ہےیہ ،   قرض پر نفع کمانے کا ایک حیلہ ہے جو کہ شرعاً درست نہیں ہےبلکہ  یہ بیع عینہ ھے جو کہ مکروہ تحریمی ہے، ایسا کرنے والوں کیلئے احادیث طیبہ میں شدید وعید وارد ہوئی ہے۔

"باب في النهي عن العينة : عن ابن عمر، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: «إذا تبايعتم بالعينة ، وأخذتم أذناب البقر، ورضيتم بالزرع، وتركتم الجهاد، سلط الله عليكم ذلا لا ينزعه حتى ترجعوا إلى دينكم»".

(سنن أبي داود (3/ 274)، دار الرسالۃ)

ترجمہ : حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ رسول اکرم ﷺ کا ارشاد نقل کرتے ہیں کہ جب تم لوگ بیع عینہ کرنے لگو گے اور (اعمال دینیہ کو چھوڑ کر)جانوروں کی دموں کو پکڑ لوگے اور کھیتی پر راضی ہو جاؤ گے اور جہاد کو چھوڑ دو گے، تو اللہ تعالی تم پر ذلت مسلط کردینگے جو کہ اس وقت تک زائل نہ کریں گے جب تک تم اپنے صحیح دینی طریقے پر نہ لوٹ جاو۔

لہذا اس طرح کا کاروبار کرنا اور اس سے نفع کمانا حلال نہیں ۔نیز  اس طرح سے نفع کمانے کے کا طریقہ بنا لینا اور اس کا نظام رائج کرنا اور بھی برا ہے۔البتہ اگر خالد زید کو فروخت کرتا ہے اور پھر زید بازار جا کر کسی اور کے ہاتھ فروخت کرتا ہے تو ایسا کرنا حرام  یا مکروھ تحریمی تو نہیں ہے۔لیکن ناپسندیدہ ضرور ہے۔اس لئے بچنا بہتر ہے۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"‌ثم ‌قال ‌في ‌الفتح ما حاصله: إن الذي يقع في قلبي أنه إن فعلت صورة يعود فيها إلى البائع جميع ما أخرجه أو بعضه كعود الثوب إليه في الصورة المارة وكعود الخمسة في صورة إقراض الخمسة عشر فيكره يعني تحريما، فإن لم يعد كما إذا باعه المديون في السوق فلا كراهة فيه بل خلاف الأولى، فإن الأجل قابله قسط من الثمن، والقرض غير واجب عليه دائما بل هو مندوب وما لم ترجع إليه العين التي خرجت منه لا يسمى بيع العينة؛ لأنه من العين المسترجعة لا العين مطلقا وإلا فكل بيع بيع العينة اهـ، وأقره في البحر والنهر والشرنبلالية وهو ظاهر، وجعله السيد أبو السعود محمل قول أبي يوسف، وحمل قول محمد والحديث على صورة العود.  رد المحتار ۔مطلب بیع العینۃ ۔ ط:سعید(5/ 326)

"(قوله: في بيع العينة) اختلف المشايخ في تفسير العينة التي ورد النهي عنها. قال بعضهم: تفسيرها أن يأتي الرجل المحتاج إلى آخر ويستقرضه عشرة دراهم ولايرغب المقرض في الإقراض طمعاً في فضل لايناله بالقرض فيقول: لا أقرضك، ولكن أبيعك هذا الثوب إن شئت باثني عشر درهماً وقيمته في السوق عشرة؛ ليبيعه في السوق بعشرة، فيرضى به المستقرض فيبيعه كذلك، فيحصل لرب الثوب درهماً وللمشتري قرض عشرة. وقال بعضهم: هي أن يدخلا بينهما ثالثاً فيبيع المقرض ثوبه من المستقرض باثني عشر درهماً ويسلمه إليه ثم يبيعه المستقرض من الثالث بعشرة ويسلمه إليه ثم يبيعه الثالث من صاحبه وهو المقرض بعشرة ويسلمه إليه، ويأخذ منه العشرة ويدفعها للمستقرض فيحصل للمستقرض عشرة ولصاحب الثوب عليه اثنا عشر درهماً، كذا في المحيط،... وقال محمد: هذا البيع في قلبي كأمثال الجبال ذميم اخترعه أكلة الربا. وقال عليه الصلاة والسلام: «إذا تبايعتم بالعينة واتبعتم أذناب البقر ذللتم وظهر عليكم عدوكم»".(کتاب البیوع، باب الصرف، ج:۵ ؍ ۲۷۳، ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144303100995

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں