بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

دودھ پیتے بچے کے پیشاب کا حکم


سوال

میں ایک دکان میں کھڑا تھا کہ امام صاحب آگئے،  ایک شخص نے پوچھاکہ میرے کپڑوں پر بچے نے پیشاب کر دیا ہے،  کیا کروں؟  امام صاحب نے جواب دیا کہ اگر بچہ صرف ماں کا دودھ پیتا ہے تو اس کا پیشاب پاک ہے،  نماز بھی پڑھ سکتے ہیں، جب وہ کچھ کھانا پینا شروع کر دے پھر ناپاک ہو گا،  پھر آپ نماز بھی نہیں پڑھ سکتے، کیا شیر خوار بچے اور کھانے والے بچے کے پیشاب  میں فرق ہے؟

جواب

شیرخوار (دودھ پیتے) بچے/بچی کا پیشاب  بھی اسی طرح ناپاک ہوتا ہے جس طرح بڑے آدمیوں کا پیشاب ناپاک ہے، ایک درہم کی مقدار سے زائد  کپڑوں  پر لگ جانے کی صورت میں  ان کپڑوں  کے ساتھ  نماز پڑھنا جائز نہیں ہے، دھو کر پاک کرنا ضروری ہے۔ 

حدیث شریف میں ہے:

"حدثنا جرير، عن هشام، عن أبيه، عن عائشة، قالت: أتي رسول الله صلى الله عليه وسلم بصبي يرضع فبال في حجره فدعا بماء فصبه عليه."

(صحیح مسلم،  باب حكم بول الطفل الرضيع وكيفية غسله، ج: 1، صفحه: 237، رقم الحدیث: 102، ط: دار إحياء التراث العربي - بيروت)

فتاوی شامی میں ہے:

وبول غیرمأ کول ولو من صغیر لم یطعم  (قوله: لم يطعم) بفتح الياء أي: لم يأكل فلا بد من غسله.

(کتاب الطهارۃ، باب الأنجاس، ج: 1، صفحه: 318، ط: ایچ، ایم، سعید)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"وكذلك بول الصغير والصغيرة أكلا أو لا، كذا في الاختيار شرح المختار."

(کتاب الطهارۃ،  الباب السابع في النجاسة وأحكامها، الفصل الثاني في الأعيان النجسة، ج: 1، صفحه: 46، ط: دار الفکر)

البناية شرح الهداية میں ہے:

"الثاني: بول الصبي الذي لم يطعم فكذلك عند جميع أهل العلم قاطبة ... وعند الشافعي نجاسة خفيفة ... واحتجوا في ذلك بأحاديث منها: ما رواه البخاري ومسلم واللفظ له عن عائشة - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا - قالت: «كان رسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يؤتى بالصبيان فيبرك عليهم ويحنكهم، فأتي بصبي فبال عليه فدعى بماء فأتبعه بوله ولم يغسله». قلنا: لم يغسله محمول على نفي المبالغة فيه، وما ورد في الأحاديث من النضح المراد به الصب."

(کتاب الطهارۃ، ما يعفى عنه من النجاسات، ج: 1، صفحہ: 723، ط:  دار الكتب العلمية - بيروت)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144410100629

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں