بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

دوبارہ نماز جنازہ کا حکم


سوال

اگر كسی شخص کا كراچی ميں انتقال ہوجائے اور يہاں اس كي نماز جنازه ادا كردی جائے،  جب اس كو گاؤں لے جايا جائے، تو  وہاں بھی لوگ دور دراز سے نماز جناز کی غرض سے حاضر ہو، تو اگر کراچی میں نماز جنازہ کی ادائیگی میں کچھ ولی پیچھے رہ جائیں جان بوجھ کر اور پھر گاؤں میں دوبارہ نماز جنازہ کروائیں، تو  کیا یہ حیلہ احناف کے نزدیک جائز ہے یا نہیں؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر  ایسا آدمی  جنازہ کی نماز  پڑھائے جس کو ولایت حاصل نہیں، نیز میت کے اولیاء میں سے کوئی ایک بھی  جنازہ کی نماز میں شریک  نہ  ہو،   اور  اس پر راضی بھی نہ ہو، تو ایسی صورت میں میت کا ولی دوبارہ جنازہ کی نماز پڑھا سکتا ہے، لیکن اگر یہاں کراچی میں نماز جنازہ میں میت کے اولیاء میں سے کسی ایک نے بھی نماز جنازہ ادا کرلی تو گاؤں وغیرہ میں دوسری مرتبہ جنازہ کی نماز ادا کرنا جائز نہیں ۔

العنایہ میں ہے:

"(فإن صلى غير الولي أو السلطان أعاد الولي) وإنما قيد بذكر السلطان، لأنه لو صلى السلطان فلا إعادة لأحد لأنه هو المقدم على الولي، ثم هو ليس بمنحصر على السلطان، بل كل من كان مقدما على الولي في ترتيب الإمامة في صلاة الجنازة على ما ذكرنا فصلى هو لا يعيد الولي ثانيا قال الإمام الولوالجي في فتاواه: رجل صلى على جنازة والولي خلفه ولم يرض به، إن تابعه وصلى معه لا يعيد لأنه صلى مرة، وإن لم يتابعه فإن كان المصلي السلطان أو الإمام الأعظم في البلدة أو القاضي أو الوالي. على البلدة. أو إمام حي ليس له أن يعيد لأن هؤلاء هم الأولون منه، وإن كان غيرهم. فله الإعادة."

(کتاب الصلوۃ، باب الجنائز، فصل في الصلاة على الميت، 2/ 120، ط: دار الفكر، لبنان)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"ولو صلى عليه الولي وللميت أولياء أخر بمنزلته ليس لهم أن يعيدوا، كذا في الجوهرة النيرة، فإن صلى غير الولي أو السلطان أعاد الولي إن شاء."

(کتاب الصلوۃ، الباب الحادي والعشرون في الجنائز، الفصل الخامس في الصلاة على الميت، 1/ 164، ط: دار الفكر بيروت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144308101742

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں