بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

دونوں بیویوں میں مساوات ضروری ہے


سوال

میں نے دو شادیاں کی ہیں،   اوردونوں بیویاں  الگ الگ گھروں میں رہائش پذیر ہیں، دوسری زوجہ ،  جو کہ الحمد للہ  پڑھی لکھی اور سمجھدار ہیں اور معاملات کو سمجھنے والی بھی ہیں،ان  کا یہ مطالبہ ہے کہ میں ان کے ساتھ زیادہ وقت گزاروں ،یعنی ہفتے میں چھ دن ان کے ساتھ اور ایک دن پہلی زوجہ کے ساتھ ، اس کی وجہ وہ یہ بتاتی ہیں کہ میں نے پہلی زوجہ کے ساتھ بیس سال سے زیادہ کا عرصہ گزارا ہے  اس لیے اب ان کا حق بنتا ہے ،  سوال یہ ہے کہ کیا ایسا کرنے سے پہلی زوجہ اور اسکے بچوں کی حق تلفی نہ ہوگی ؟،  آیا دوسری زوجہ کا  مذکورہ  مطالبہ شریعت مطہرہ کی رُو سے  جائز ہے؟ں شریعت مطہرہ کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں ۔

جواب

بصورتِ مسئولہ آپ  کی دونوں بیویاں اپنے حقوق میں برابر ہیں ، چاہے پہلی بیوی ہو یا دوسری اور  شریعت کی رُو سےآپ پر دونوں بیویوں  کے درمیان عدل ومساوات  کرنا  ،اور دونوں کو ان کا حق برابر برابر دینا ضروری ہے،تاہم یہ مساوات  نان و نفقہ،رہائش ، رات گزارنے  اور دیگر حقوق میں ہونی چاہیے ،جماع شرط نہیں ہے،قرآن و احادیث میں بھی متعدد ازواج کے درمیان برابری کرنے پر زور دیا گیا ہے اور ایسا نہ کرنے والے شخص سے متعلق  سخت وعیدیں ذکر کی گئی ہیں۔

لہٰذا  دوسری بیوی کا مذکورہ مطالبہ  شرعاً درست نہیں ہے،بل کہ  ہر ایک کے ساتھ برابر وقت گزارنا لازم ہے،جہاں تک بات بیس سال تک پہلی بیوی کے ساتھ وقت گزارنے کی ہے چونکہ اس وقت پہلی بیوی ہی بیوی تھی اس لیے پورا حق تو   اس بیوی کا حق تھا، دوسری بیوی جب سائل کے مطابق سمجھدار ہےتو اس کی سمجھداری کا تقاضا یہی ہے کہ اس فرق کو سمجھے ، اب جب دو بیویاں ہیں لہٰذا اب دونوں  کی موجودگی کی وجہ سے دونوں کے حقوق کی ادائیگی ضروری ہے۔البتہ  اگر پہلی بیوی اپنی خوشی و رضامندی سے اپنا حق معاف کردے اور اپنی باری کے چند  دن آپ کو دوسری بیوی کے پاس رہنے کی اجازت دیدے تو پھر جائز ہے،لیکن ایسی صورت میں پہلی بیوی کو شرعاً مکمل اختیار حاصل ہوگا کہ جب چاہے  اپنی باری واپس لے لے۔

ان مواقع پر سب سے بہتر حل یہی ہے کہ دوسری بیوی کو صبر و شکر کے ساتھ رہنے کی تلقین کی جائے اور  اپنے حقوق سے زائد  کے مطالبے کے بجاۓ ایک دوسرے کے ساتھ پیار محبت سے، مل جل کر رہنے کی عادت بنائی جائے،  ورنہ  ایسے حالات میں شوہر کے لیےدونوں بیویوں  کو خوش رکھنا بہت مشکل ہوجاتا ہے۔

مشکاۃ المصابیح میں ہے:

"وعن أبي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «إذا كانت عند الرجل امرأتان فلم يعدل بينهما جاء يوم القيامة وشقه ساقط». رواه الترمذي وأبو داود والنسائي وابن ماجه والدارمي."

(كتاب النكاح، باب القسم،الفصل الثاني، 965/2، ط: المکتب الإسلامي)

ترجمہ: "حضور ﷺ نے فرمایا کہ جس کی دو بیویاں ہوں اور وہ ان کے درمیان برابری نہ کرے تو وہ قیامت کے دن ایسی حالت میں آئے گا کہ اس کا آدھا دھڑ ساقط اور مفلوج ہوگا."

فتاوی شامی میں ہے:

"(‌يجب) ‌وظاهر ‌الآية أنه فرض نهر (أن يعدل) أي أن لا يجور (فيه) أي في القسم بالتسوية في البيتوتة (وفي الملبوس والمأكول) والصحبة (لا في المجامعة) كالمحبة بل يستحب."

(كتاب النكاح ، ‌‌باب القسم بين الزوجات، 201/3، ط:سعید)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"‌ومما ‌يجب ‌على ‌الأزواج للنساء العدل والتسوية بينهن فيما يملكه والبيتوتة عندها للصحبة والمؤانسة لا فيما لا يملك وهو الحب والجماع كذا في فتاوى قاضي خان. والعبد كالحر في هذا كذا في الخلاصة. فيسوي بين الجديدة والقديمة...

ولو أقام عند إحدى امرأتيه زيادة بإذن الأخرى جاز وكان لها أن ترجع عن ذلك ولا يكون الإذن لازما كذا في فتاوى قاضي خان."

(كتاب النكاح، الباب الحادي عشر في القسم، 340،41/1، ط: رشيدية)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144501101722

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں