بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

حمار ذی ناب یا ذی مخلب نہ ہونے کے باوجود کیوں حرام ہے؟


سوال

حمار کے حرام ہونے کی کیا علت ہے حالانکہ وہ نہ تو ذی ناب درندہ ہے اور نہ ہی پنجوں والا ہے ؟

جواب

گدھے کے گوشت کے ممنوع ہونے کی علت وہ احادیث ہیں جن میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حمار اہلی (پالتو گدھوں) کے گوشت سے منع فرمایا ہے، نیز حدیث شریف میں گدھے کے گوشت کو ناپاک بھی کہا گیا ہے، چنانچہ صحیح بخاری میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سےروایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک شخص آیا اور عرض کیا کہ گدھے کھا لیے گئے ، پھر ایک دوسرا شخص آیا اور کہا کہ گدھے کھا لیے گئے ،پھر ایک تیسرے شخص نے کہا کہ گدھے ختم کر دیے گئے،  آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر ایک اعلان کرنے والے کو حکم دیا کہ لوگوں میں اعلان کردے کہ اللہ اور اس کے رسول پالتو گدھوں کے گوشت  سے منع کرتے ہیں، اس لیے  کہ وہ ناپاک ہیں، چنانچہ جن ہانڈیوں میں گوشت پک رہے تھے وہ الٹ دی گئیں۔

اس کے علاوہ حمار  کی ممانعت میں یہ حکمت بھی ہے کہ وہ حماقت و بے وقوفی میں ضرب المثل ہے، لہذا اس کا گوشت کھانے سے انسانی طبیعت میں اس کے مضر اثرات پیدا ہونے کا خدشہ بھی ہے۔

باقی کسی جانور کے حرام یا مکروہ ہونے کے لیے صرف  ذي ناب یا  ذي مِخلَبیعنی نوکیلے دانتوں والا درندہ یا پنجوں سے شکار کرنے والا پرندہ ہونا شرط  نہیں ہے۔حرمت و کراہت کی دوسری وجوہات بھی ہوسکتی ہیں ،بعض مرتبہ خساست اور خبث کی وجہ سے بھی حرمت کا حکم لگایا جاتاہے۔

صحیح بخاری میں ہے:

"5528 - حدثنا ‌محمد بن سلام أخبرنا ‌عبد الوهاب الثقفي، عن ‌أيوب، عن ‌محمد، عن ‌أنس بن مالك رضي الله عنه، «أن رسول الله صلى الله عليه وسلم جاءه جاء، فقال: أكلت الحمر، ثم جاءه جاء، فقال أكلت الحمر، ثم جاءه جاء، فقال: أفنيت الحمر، فأمر مناديا فنادى في الناس إن الله ورسوله ينهيانكم عن لحوم الحمر الأهلية؛ فإنها رجس. فأكفئت القدور وإنها لتفور باللحم".

(‌‌‌‌كتاب الذبائح والصيد، باب لحوم الحمر الإنسية، 7/ 95 ط:المطبعة الكبرى الأميرية)

تنویر الابصار مع الدر المختار میں ہے:

"(ولا يحل) (ذو ناب يصيد بنابه) فخرج نحو البعير (أو مخلب يصيد بمخلبه) أي ظفره فخرج نحو الحمامة (من سبع) بيان لذي ناب. والسبع: كل مختطف منتهب جارح قاتل عادة (أو طير) بيان لذي مخلب (ولا) (الحشرات) هي صغار دواب الأرض واحدها حشرة (والحمر الأهلية) بخلاف الوحشية فإنها ولبنها حلال".

وفي الرد:

(قوله ولا يحل ذو ناب إلخ)... والسر فيه أن طبيعة هذه الأشياء مذمومة شرعا فيخشى أن يتولد من لحمها شيء من طباعها فيحرم إكراما لبني آدم، كما أنه يحل ما أحل إكراما له ط عن الحموي. وفي الكفاية: والمؤثر في الحرمة الإيذاء وهو طورا يكون بالناب وتارة يكون بالمخلب أو الخبث، وهو قد يكون خلقة كما في الحشرات والهوام، وقد يكون بعارض كما في الجلالة...

(قوله والحمر الأهلية) ولو توحشت تتارخانية".

(‌‌كتاب الذبائح، 6/ 304، ط: سعيد)

حجۃ اللہ البالغہ میں ہے:

"ويتلوه تناول حيوان جبل على الأخلاق المضادة للأخلاق المطلوبة من الإنسان حتى صار كالمندفع إليها بالضرورة وصار يضرب به المثل وصارت الطبائع السليمة تستخبثه وتأبى تناوله اللهم إلا قوما لا يعبأ به.

والذي تكامل فيه هذا المعنى وظهر ظهورا بينا وانقاد له العرب والعجم جميعاّ أشياء:

منها: السباع المخلوقة على الخدش والجرح والصولة وقسوة القلب ولذلك قال عليه السلام في الذئب أو يأكله أحد ؟

ومنها: الحيوانات المجبولة على أيذاء الناس...

ومنها: حيوانات جبلت على الصغار والهوان والتستر في الأخدود كافأرة وخشاش الأرض.

ومنها: حيوانات تتعيش بانجاسات الجيفة ومخامرتها وتناولها حتى امتلأت أبدانها بالنتن.

ومنها: الحمار فإنه يضرب به المثل في الحمق والهوان وكان كثير من أهل الطبائع السليمة من العرب يحرمونه ويشبه الشيطان وهو قوله عليه الصلاة والسلام إذا سمعتم نهيق الحمار فتعوذوا بالله من الشيطان فإنه رأى شيطانا.

وأيضاً: قد اتفق الأطباء أن هذه الحيوانات كلها مخالفة لمزاج نوع الأنسان لا يسوغ تناولها طبا".

(باب الأطعمة والأشربة، 2/543، ط: دار ابن كثير)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144503101469

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں