میراایک عزیزویب ڈومین کاکام وغیرہ کرتاہےاس نے مجھے پانچ لاکھ انویسٹمنٹ کرنےکابولاہے اور تفصیل اسطرح ہے کہ پانچ لاکھ انکو دوتووہ ایگریمنٹ کرتےہیں جس میں یہ لکھاہوتا ہے کہ آپکو جب بھی یہ پانچ لاکھ چاہیے ہونگے توآپ دودن پہلے بتا دیناہم آپکی رقم آپکو واپس کر دینگے لیکن جب تک وہ رقم ان کے پاس رہے گی تو وہ اس پرہرماہ بیس ہزارروپے دینگے اور اگرکام اچھاہواتو پچیس سے تیس ہزاربھی مل سکتے ہیں اور اگرکام اچھانہ ہواتو پیسےبیس ہزار ہی ملیں گے آیااسطرح کے کام میں پیسہ لگانادرست ہے؟
صورت مسئولہ میں سائل کا اپنے عزیز کے ساتھ مذکورہ طریقہ پر کاروبار کرنا سودی معاملہ ہے کیونکہ اس میں منافع فکس ہے، لہذا اس کام میں پیسے لگانا جائز نہیں ہے۔
قرآن کریم میں باری تعالی کا ارشاد ہے:
﴿ يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ (278) فَإِنْ لَمْ تَفْعَلُوا فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ وَإِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوسُ أَمْوَالِكُمْ لَا تَظْلِمُونَ وَلَا تُظْلَمُونَ ﴾ [البقرة: 278، 279]
ترجمہ: اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور چھوڑ دو جو باقی رہ گیا سود میں سے اگر تم مؤمن ہو۔ سو اگر تم ایسا نہیں کروگے تو سن لو اعلانِ جنگ اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے، اور اگر تم توبہ کرو تو تمہارے اصل اموال تمہارے لیے ہیں نہ تم ظلم کروگے کسی پر اور نہ تم پر ظلم کیا جائے گا۔
صحیح مسلم میں نبی علیہ الصلاۃ والسلام کا ارشاد ہے:
"عن جابر قال: لعن رسول اﷲ صلی اﷲ علیه وسلم آکل الربا، وموکله، وکاتبه، وشاهدیه، وقال: هم سواء".
(الصحيح لمسلم، با ب لعن آکل الربا، ومؤکله، النسخة الهندیة، ۲/۲۷)
ترجمہ:" حضرت جابر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سود کھانے والے، کھلانے والے، سودی معاملہ لکھنے والے اور اس کے گواہوں پر لعنت فرمائی ہے، اور ارشاد فرمایا: یہ سب (سود کے گناہ میں) برابر ہیں۔"
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144311100435
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن