بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

ڈولفن اور شارک مچھلی کا عند الاحناف حکم


سوال

ڈولفن اور شارک مچھلی کا عند الاحناف کیا حکم ہے؟

جواب

’’شارک ‘‘ جس کو عامی زبان میں ” مگرا‘‘  کہتے ہیں اور عربی زبان میں اس کو  ’’قرش“ اور  ” کوسج ‘‘  کہا جاتا ہے ۔ اہلِ لغت اور اہلِ لسان نےا س ( شارک  / مگرا ) کو مچھلی کی قسم میں سے شمار نہیں کیا۔

تفسیر روح المعانی میں ہے :
"وهو في الأصل تصغير قرش بفتح القاف اسم لدابة في البحر أقوى دوابه تأكل ولا تؤكل وتعلو ولا تعلى، وبذلك أجاب ابن عباس معاوية لما سأله: لم سميت قريش قريشاً؟ وتلك الدابة تسمى قرشاً كما هو المذكور في كلام الحبر".  ( 15/471 سورۃ قریش ط: دارالکتب العلمیۃ ) 

تفسير الثعلبي = الكشف والبيان عن تفسير القرآن:
"وسأل معاوية عبد الله بن عباس: لم سمّيت قريش قريشاً؟ فقال: لدابّة في البحر يقال لها: القرش، تأكل ولا تؤكل، وتعلو ولا تعلى. قال: وهل يعرف العرب ذلك في أشعارهم؟ قال: نعم:

وقريش هي التي تسكن البحر بها ... سميت قريش قريشاً

سلطت بالعلو في لجّة البحر ... على ساير البحور جيوشاً

تأكل الغثّ والسمين ولا تترك فيه ... لذي جناحين ريشاً

 هكذا في البلاد حي قريش ... يأكلون البلاد أكلاً كميشاً

ولهم آخر الزمان نبيّ ... يكثر القتل فيهم والخموشا

يملأ الأرض خيله ورجالاً ... يحسرون المطيّ حسراً كشيشاً". (10/ 301)

تفسير الرازي = مفاتيح الغيب أو التفسير الكبير :
"أنه تصغير القرش وهو دابة عظيمة في البحر تعبث بالسفن، ولا تنطلق إلا بالنار". (32/ 296)

لسان العرب :
"والقِرْشُ: دَابَّةٌ تَكُونُ فِي الْبَحْرِ المِلْح؛ عَنْ كُرَاعٍ. وقُرَيشٌ: دابةٌ فِي الْبَحْرِ لَا تدَع دَابَّةً إِلا أَكلتها فَجَمِيعُ الدواب تخافُها". (6/ 335)

القاموس المحيط :
"القرش، وهو دابة بحرية تخافها دواب البحر كلها". (ص: 602)

تاج العروس :

"سميت بمصغر القرش، وهي دابة بحرية تخافها دواب البحر كلها، وقيل: إنها سيدة الدواب، إذا دنت وقفت الدواب، وإذا مشت مشت".(17/ 324)

الرائدمیں ہے :

" القرش :ج : قروش  1۔ الغرش، 2۔ حیوان بحری یعرق “کلب البحر ” یقطع بأسنانه یخافه الإنسان والسمک".  ( ج :2 ص:1161 ) 

القاموس العصری انگلش عربی ڈکشنری میں ہے:

"shark.قرش _____ كلب البحر".(مؤلف الیاس الظنون، ص: 348، ط: مطبعة المصریة)

مجموعہ فتاویٰ مولانا عبدالحیٰ الکھنوی ؒ میں ہے :

’’اسی طرح ” کوسج‘‘ اور قرش بھی مچھلیاں نہیں؛  کیوں کہ یہ امام شافعیؒ کے نزدیک مختلف فیہ ہیں، حال آں کہ وہ تمام بحری جانوروں کے کھانے کو جائز لکھتے ہیں ۔پھر وہ ہمارے نزدیک کس طرح جائز ہوسکتے ہیں؟ اورا س لیے کہ ان میں مچھلیوں کی مندرجہ بالا علامتوں میں سے کوئی علامت نہیں پائی جاتی ۔مفتی فصیح الدین اپنے رسالہ ” احکام الحیوان“ میں لکھتے ہیں کہ ” قرش“ ایک بڑ اجانور ہے اس کو ”سیدالدواب“ کہتے ہیں ۔اورقریش لقب اسی سے ماخوذ ہے ۔ا ورسواحل بلاد مغرب میں اس کو ”اثرار موری“ کہتے ہیں ۔وہ امام صاحب کے نزدیک حرام ہے اور ائمہ ثلاث کے نزدیک حلال ۔ اور محمودشاہ ؒ اپنے فتاویٰ میں لکھتے ہیں ۔ ” السمک ماله شق وشوك“  مچھلی وہ ہےجس  کی دم کے دو ٹکڑے ہوں، اور جس میں کانٹے ہوں اوراسی میں ہے ۔

”والسمك ماله فلوس وما یبض في الماء وماله شقاق و یکون مولده ومعایشه في الماء ولیس له لسان“.  ”اصلاً مچھلی وہ ہے جس کے سفتے ہوں اور جو پانی میں سفید دکھائی دے اور جس کی دم کے دو ٹکڑوں ہوں۔اور اس کی پیدائش اور زندگی پانی میں ہو۔اور جس کی زبان نہ ہو“۔

اس سے معلوم ہوا کہ مچھلی کی سب سے مشہور علامت سفتے ہیں ۔۔۔  قرش اور کوسج کے اوپر سفتے نہیں ہوتے اور ان کی دم پھٹی نہیں ہوتی اور ان میں کانٹے نہیں ہوتے ۔اور انسان کے جسم کو تیز تلوار کی طرح کاٹ دیتے ہیں“ ۔ ( مجموعہ فتاویٰ ۔22/229 ط : سعید کراچی ) 

شارک اور مگرا کے حرام ہونے کی ایک مستقل وجہ ” مگرا “  کا ” درندہ “ ہونا بھی ہے؛ اس لیے کہ درندہ جانور حرام ہوتے ہیں۔

نیز  ’’ڈولفن‘‘  میں بھی مچھلی ہونے  کی تمام شرائط نہیں پائی جاتیں، ماہرین کے ہاں بھی یہ مچھلی شمار نہیں ہوتی، لہذا اسکا کھانا بھی حلال نہیں ہے۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144110200379

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں