دبئی کی ایک کمپنی ہے جو ڈالرز کی خرید و فروخت کرتی ہے اور خرید و فروخت كا سارا عمل روبوٹ کے ذریعہ ہوتا ہے ہم اِس کمپنی میں پیسہ لگاتے ہیں جس میں ہمیں ہر مہینہ نفع اور نقصان دونوں ہوتا ہے، ساتھ ساتھ کمپنی ہمارا پیسہ لگانے پر الگ سے چارج بھی لیتی ہے اور کمپنی ساتھ ساتھ ایک ڈیجیٹل کرنسی بھی دیتی ہے، جو 12مہینہ اور 3سال کے بعد ہی بیچ سکتے ہیں تو کیا ایسی کمپنی میں پیسہ لگا کر کاروبار کرنا حلال ہے یا حرام؟
کرنسی کی خرید وفروخت شرعا "بیعِ صرف" کہلاتی ہے، جس میں بدلین (خریدی ہوئی کرنسی اور بیچی جانے والی کرنسی) پر مجلس میں قبضہ ضروری ہے، دونوں جانب سے یا کسی ایک جانب سے ادھار ناجائز ہے، لہذا کرنسی کی آن لائن ٹریڈنگ جس میں کرنسی کی خرید و فروخت ادھار ہوتی ہے یا نقد ہوتی ہے، مگر عقد کے دونوں فریق یا کوئی ایک فریق اپنے حق پر قبضہ نہیں کرتا، ایسے سودے فاسد ہیں اور ان کا نفع حلال نہیں ہے،اس طرح کی کمپنیوں میں انویسمنٹ کر کے کاروبار کرنا جائز نہیں ہے۔
نیز ڈیجیٹل کرنسی جنہیں ’’ کرپٹو کرنسی ‘‘ کہا جاتا ہے، جس کا کوئی مادی وجود نہیں ہے، اسے ’’کرنسی‘‘ یا ’’مال‘‘ قرار نہیں دیا جاسکتا ہے ؛ لہٰذا اس کے ذریعہ لین دین کرنا، اس میں سرمایہ کاری کرنا اور اس کا کاروبار کرنا جائز نہیں ہے۔
فتاوی شامی میں ہے:
"(هو) لغةً: الزيادة. وشرعاً: (بيع الثمن بالثمن) أي ما خلق للثمنية ومنه المصوغ (جنساً بجنس أو بغير جنس) كذهب بفضة، (ويشترط) عدم التأجيل والخيار و (التماثل) أي التساوي وزناً، (والتقابض) بالبراجم لا بالتخلية (قبل الافتراق)، وهو شرط بقائه صحيحاً على الصحيح، (إن اتحد جنساً وإن) وصلية (اختلفا جودةً وصياغةً) ؛ لما مر في الربا (وإلا) بأن لم يتجانسا (شرط التقابض) لحرمة النساء، (فلو باع) النقدين (أحدهما بالآخر جزافاً أو بفضل وتقابضا فيه) أي المجلس (صح)."
(کتاب البیوع، باب الصرف،ج:5،ص:257،ط:سعید)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"(وأما شرائطه) فمنها قبض البدلين قبل الافتراق كذا في البدائع سواء كانا يتعينان كالمصوغ أو لا يتعينان كالمضروب أو يتعين أحدهما ولا يتعين الآخر كذا في الهداية."
(کتاب الصرف، الباب الأول، ج:3، ص:217، ط:دار الفكر،بيروت)
فتاوی شامی میں ہے:
"مطلب في أجرة الدلال [تتمة]
قال في التتارخانية: وفي الدلال والسمسار يجب أجر المثل، وما تواضعوا عليه أن في كل عشرة دنانير كذا فذاك حرام عليهم. وفي الحاوي: سئل محمد بن سلمة عن أجرة السمسار، فقال: أرجو أنه لا بأس به وإن كان في الأصل فاسدا لكثرة التعامل وكثير من هذا غير جائز، فجوزوه لحاجة الناس إليه كدخول الحمام."
(كتاب الإجارة، ج:6، ص:63، ط:سعيد)
’’ تجارت کے مسائل کا انسائیکلو پیڈیا ‘‘ میں ہے :
’’بٹ کوائن‘‘ محض ایک فرضی کرنسی ہے، اس میں حقیقی کرنسی کے بنیادی اوصاف اور شرائط بالکل موجود نہیں ہیں، لہذا موجودہ زمانے میں " کوئن" یا "ڈیجیٹل کرنسی" / "کرپٹو کرنسی" کی خرید و فروخت کے نام سے انٹرنیٹ پر اور الیکٹرونک مارکیٹ میں جو کاروبار چل رہا ہے وہ حلال اور جائز نہیں ہے، وہ محض دھوکا ہے، اس میں حقیقت میں کوئی مادی چیز نہیں ہوتی، اور اس میں قبضہ بھی نہیں ہوتا صرف اکاؤنٹ میں کچھ عدد آجاتے ہیں، اور یہ فاریکس ٹریڈنگ کی طرح سود اور جوے کی ایک شکل ہے، اس لیے " بٹ کوائن" یا کسی بھی " ڈیجیٹل کرنسی" کے نام نہاد کاروبار میں پیسے لگانا اور خرید و فروخت میں شامل ہونا جائز نہیں ہے۔
( تجارت کے مسائل کا انسائیکلوپیڈیا: ج:2، ص:92، ط:بیت العمار)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144602102281
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن