بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

30 جُمادى الأولى 1446ھ 03 دسمبر 2024 ء

دارالافتاء

 

ڈالر کو ادھار بیچنا جائز نہیں


سوال

ہم ڈالر خریدتے ہیں ۔کیش کے ریٹ الگ ہوتے ہیں اور ادھار کے ریٹ الگ ہوتے ہیں ۔جتنا ٹائم ہم زیادہ لیتے ہیں اس حساب سے ریٹ زیادہ ہوتا ہے کیا ایسا کرنا صحیح ہے؛ کیوں کہ ہمیں باہر بھیجنا ہوتا ہے ۔کاروبار کے لیے ہم سودا کرلیتے ہیں ایکسچنج کمپنی والے TT کے ذریعے باہر بھیج دیتے ہیں پھر ہم ان کو رقم تھوڑی تھوڑی کر کے دیتے ہیں۔

دوسرا مسئلہ کسی سے ڈالر کا ریٹ فکس کرکے رقم ادھار لے سکتے ہیں مثال کے طور پر آج کا ریٹ 300 روپے سے ہم کو رقم دیتا ہے ہم چار سے پانچ ماہ بعد 320 روپے سے رقم واپس کرتے ہیں، کیا ایسا کرنا صحیح ہے؟

جواب

 واضح رہے کہ کرنسی کے بدلے کرنسی کی   بیع میں ادھار جائز نہیں ہے، بلکہ ضروری ہے کہ سودا نقد کیا جائے اور مجلس عقد میں ہی ہاتھ کے ہاتھ  جانبین کا عوضین پر قبضہ بھی ہوجائے ،ورنہ بیع باطل  ہوجائے گی،اسی طرح  ڈالر کی اد ھار خرید و فروخت کرنا جائز نہیں،یعنی جب ڈالر خریدا جائے تو اسی مجلس میں ڈالر پر قبضہ کرلیا جائے اور ساتھ ہی اس کی رقم بھی بیچنے والے کے حوالے کردی جائےاور جب اس کو بیچا جائے تو اسی وقت اس کی قیمت پر قبضہ کرنے کے ساتھ ساتھ ڈالر بھی خریدار کو حوالہ کردیا جائے،بصورتِ دیگر یہ معاملہ سودی ہوجانے کی وجہ سے جائز نہ ہوگا، پس صورتِ مسئولہ میں ڈالرکو روپے کے عوض ادھار یا کمی زیادتی کے ساتھ خریدنا  شرعًا حرام ہے۔

"الفتاوى الهندية"میں ہے:

"(وأما شرائطه) فمنها قبض البدلين قبل الافتراق كذا في البدائع سواء كانا يتعينان كالمصوغ أو لا يتعينان كالمضروب أو يتعين أحدهما ولا يتعين الآخر كذا في الهداية."

(کتاب الصرف،الباب الأول، ،ج:٣، ص:٢١٧، ط:دار الفكر،بيروت)

فتاوی شامی میں ہے:

"(هو) لغةً: الزيادة. وشرعاً: (بيع الثمن بالثمن) أي ما خلق للثمنية ومنه المصوغ (جنساً بجنس أو بغير جنس) كذهب بفضة، (ويشترط) عدم التأجيل والخيار و (التماثل) أي التساوي وزناً، (والتقابض) بالبراجم لا بالتخلية (قبل الافتراق)، وهو شرط بقائه صحيحاً على الصحيح، (إن اتحد جنساً وإن) وصلية (اختلفا جودةً وصياغةً) ؛ لما مر في الربا (وإلا) بأن لم يتجانسا (شرط التقابض) لحرمة النساء، (فلو باع) النقدين (أحدهما بالآخر جزافاً أو بفضل وتقابضا فيه) أي المجلس (صح)".

(باب الصرف، ج: 5، ص: 257 - 259،  ط: سعيد)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144508101258

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں