بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ڈالر کو پاکستانی روپیہ کے بدلے کمی زیادتی کے ساتھ ادھار پر فروخت کرنا


سوال

1-ایک شخص کی کاروباری نوعیت ایسی ہے کہ وہ ڈالر کو پاکستانی روپے کے بدلے میں بطور ادھار بیچتا ہے،لیکن آج کے ریٹ پر نہیں ،بلکہ ادھار کی وجہ سے زیادہ قیمت پر دیتا ہے،تو کیا یہ سود کے زمرے میں آتا ہے یا نہیں ؟

2-اگر مشتری میعاد متعین پر وہ ادھار ادا نہ کریں ،تو بائع میعاد بڑھانے پر قیمت کوبھی بڑھا دیتا ہے،تو یہ شرعا کیسا ہے؟

3-مذکورہ بالا دونوں صورتوں میں اس شخص کے کاروبارکے پیسے اگر مدرسہ یا مسجد کی تعمیر میں لگائے  جائیں،اور تعمیرِمدرسہ اور مسجد میں دوسرے لوگوں کے بھی پیسے ہوں، تو اب اس کا کیا حکم ہے؟

4-نیز اسی گھر کے طلبہ مدرسہ یا اسکول کو فیس دیتے ہیں،اور اس سے پھر اساتذہ کی تنخواہ دی جاتی ہے،اس کا کیا حکم ہے؟

5-نیز ہمارے یہاں طلبہ مدرسہ میں دوران ِامتحان رہائش اختیار کرتے ہیں ،اور عشاء کے کھانے میں ہر طالب علم گھر سے کھانا لاتا ہے،تو اسی مذکورہ شخص کے گھرسے سالن اور روٹی  بھی لے کر آتے ہیں،اور پھر سارے طلبہ کھانے میں شریک ہوتے ہیں،اس کا کیا حکم ہے؟

6-نیز اس شخص کے ساتھ مہمان نوازی کرنا اور تقریبات میں شرکت کرنا کیا حکم رکھتا ہے؟

7-اگر اس کاروبار کا حکم سود کا ہے،اور یہ شخص صدقِ دل سے توبہ کرنا چاہتا ہے،لیکن یہ کاروبار بہت زمانے سے چل رہا ہے،ان کو اپنے راس المال کا پتہ نہیں،اب اس کی صفائی کا کیا حکم ہے؟

جواب

1/2-واضح رہے کہ ایک ملک کی کرنسی کو دوسرے ملک کی کرنسی کے بدلے میں فروخت کرنا یہ شرعا بیع صرف کہلاتا ہے،بیع صرف میں یہ ضروری ہوتا ہے کہ اگر جانبین میں جنس مختلف ہوجیسے ایک جانب ڈالر اور دوسری جانب پاکستانی روپیہ ہو،تو کمی زیادتی کے ساتھ بیچنا تو جائز ہے،کیوں کہ جنس مختلف ہے،البتہ اس معاملے میں یہ ضروری ہے  کہ جانبین سے اس مجلس میں  عوضین پر قبضہ ثابت ہوجائے،ادھار معاملہ کرنا جائز نہیں ،اگر ادھار معاملہ کیا گیا تو یہ معاملہ باطل  ہوجائے گا،اور پھر اس کا حکم یہ ہےکہ عاقدین پر لازم  ہے کہ  جو عوض لیا ہے،وہ واپس کرے ۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں مذکورہ شخص کا ڈالر کو پاکستانی روپے کے بدلے میں کمی زیادتی کے ساتھ نقد  بیچنا تو جائز ہے،یہ سود میں شامل نہیں ،البتہ چوں کہ وہ یہ معاملہ ادھار کی بنیاد پر کرتا ہے،اسی لیے یہ معاملہ درست نہیں، اس معاملہ کو ختم کرناضروی تھا،اب تک اس نے جتنے بھی معاملہ ایسے کیے ہیں، جن کے بارے میں اس کو یاد ہے،تو ان سب میں اصل رقم رکھے زائد رقم واپس کردے،اور جن کے بارے میں یاد نہیں عرصہ دراز گزرجانے کی وجہ سے ,تو اتنازائد نفع کے  مال  کو صدقہ کردے،اور اپنے اس عمل پر خوب توبہ واستغفار کرے۔

3-جو پیسے مذکورہ کاروبار سے حاصل کرکے،مسجد یا مدرسہ میں لگادیے ہیں،اس کے بارے میں بھی توبہ واستغفار کرے،اور اگر ممکن ہو،تو کوئی صاحب خیر اپنی طرف سے اتنی رقم جتنی سائل نے مسجد یا مدرسہ میں لگائی ہے،اگر وہ نفع والی رقم ہےتو وہ سائل کوواپس  دے دے،تاکہ مسجد اور مدرسہ میں غیرشرعی کاروبارکا پیسہ باقی نہ رہے۔

4-ان  پیسوں سے مدرسہ یا اسکول کی جتنی فیس دی ہے،وہ ادا ہوگئی ہے،البتہ حرام رقم سے فیس اداکرنے والا گناہ گار ہے۔ 

5-مذکورہ شخص کے بچوں کا کھانا ،دوسرے طلبہ نے کھالیا ہے،تو ان پر کوئی گناہ نہیں،اگر طلبہ زکوۃ کے مستحق ہیں ،ورنہ توبہ واستغفار لازم ہے۔

6-اگر مذکورہ شخص آئندہ کے لیے اس کاروبار سے رک جاتا ہے،اور حلال رقم سے دعوت کا انتظام کرتا ہے،تو پھر ایسے شخص کی دعوت میں شریک ہونا،اس کے ساتھ تقریبات میں شامل ہونا درست ہے،اور اگر وہ مذکورہ معاملہ سے دوری اختیار نہیں کرتا،اور حلال رقم سے دعوت کا انتظام نہیں کرتا،بلکہ بدستور اس میں لگا رہتا ہے،تو پھر ایسے شخص کی دعوت میں شامل ہونا درست نہیں ۔

7-جن لوگوں کے بارے میں معلوم ہو کہ فلاں سے اتنے لیے ہیں ،اور فلاں سے اتنے ،ان کو پیسے واپس کرکے معاملہ ختم  کردے،اور جن کے بارے میں معلوم نہیں عرصہ دراز گزرنے کی وجہ سے ،اور کتابت وغیرہ کے ذریعے بھی ان کا علم نہ ہوسکے ،تو اتنا زائد نفع کا مال صدقہ کردے۔

فتاوی شامی میں ہے:

'' (هو) لغةً: الزيادة. وشرعاً: (بيع الثمن بالثمن) أي ما خلق للثمنية ومنه المصوغ (جنساً بجنس أو بغير جنس) كذهب بفضة، (ويشترط) عدم التأجيل والخيار و (التماثل) أي التساوي وزناً، (والتقابض) بالبراجم لا بالتخلية (قبل الافتراق)، وهو شرط بقائه صحيحاً على الصحيح، (إن اتحد جنساً وإن) وصلية (اختلفا جودةً وصياغةً) ؛ لما مر في الربا (وإلا) بأن لم يتجانسا (شرط التقابض) لحرمة النساء، (فلو باع) النقدين (أحدهما بالآخر جزافاً أو بفضل وتقابضا فيه) أي المجلس (صح)''

(باب الصرف، ج:5، ص:257، ط:سعید)

البحر الرائق میں ہے:

"لو ‌مات ‌رجل وكسبه من ثمن الباذق والظلم أو أخذ الرشوة تعود الورثة ولا يأخذون منه شيئا وهو الأولى لهم ويردونه على أربابه إن عرفوهم، وإلا يتصدقوا به؛ لأن سبيل الكسب الخبيث التصدق إذا تعذر الرد."

(كتاب الكراهية، ج:8، ص:229، ط:دار الكتاب الإسلامي)

المبسوط للسرخسی میں ہے:

"ولو اشترى قلب فضة بدينار، ودفع الدينار، ثم إن رجلا أحرق القلب في المجلس؛ فللمشتري الخيار لتغير المعقود عليه، فإن اختار إمضاء العقد، واتباع المحرق بقيمة القلب من الذهب، فإن قبضه منه قبل أن يفارق المشتري البائع فهو جائز؛ لأن قبض بدل القلب في المجلس كقبض عينه، ويتصدق بالفضل على الدينار، وإن كان فيه؛ لأنه ربح حصل لا على ضمانه، وإن تفرقا قبل أن يقبض القيمة ‌بطل ‌الصرف."

(باب الإجارة في عمل التمويه، ج:14، ص:79، ط:دار المعرفة)

بدائع الصنائع میں ہے:

"إن وجد التقابض وهو القبض من الجانبين قبل التفرق بالأبدان تم الصرف والبيع جميعا، وإن لم يوجد أو وجد القبض من أحد الجانبين دون الآخر ‌بطل ‌الصرف لوجود الافتراق من غير قبض."

(فصل في شرائط الصرف، ج:5، ص:217، ط:دار الكتب العلمية)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"ولو تعاقد الرجلان في الصرف ثم أمر كل واحد منهما رجلا أن ينقد الثمن ثم قام الآمر عن المجلس فذهب ‌بطل ‌الصرف."

(الباب الثالث في الوكالة بالبيع، ج:3، ص:599، ط:دار الفكر)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"‌والسبيل ‌في ‌المعاصي ردها وذلك هاهنا برد المأخوذ إن تمكن من رده بأن عرف صاحبه وبالتصدق به إن لم يعرفه ليصل إليه نفع ماله۔"

(کتاب الکراھیة، ج:5، ص:349، ط:دار الفكر)

فتاوی شامی میں ہے:

"قوله ( الحرام ينتقل ) أي تنتقل حرمته وإن تداولته الأيدي وتبدلت الأملاك۔۔۔وما نقل عن بعض الحنفية من أن الحرام لا يتعدى ذمتين  سألت عنه الشهاب ابن الشلبي فقال هو محمول على ما إذا لم يعلم بذلك۔"

(کتاب البیوع، ج:5، ص:98، ط:سعید) 

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144506101597

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں