بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ڈالر کی شکل میں قرضہ لینے کی صورت میں اتنے ہی ڈالر کا لوٹانا لازم ہے


سوال

میرے والد صاحب  نے ایک شخص سے بطور قرض 40000 ڈالر لیے تھے، والد صاحب کا ابھی ایک ہفتہ قبل انتقال ہوگیا، ہم بھائیوں نے اس شخص سے کہا تھا کہ جو والد صاحب پر آپ کا 40000 ڈالر قرض ہے، ہم ادا کریں گے، لیکن وہ شخص کہہ رہا ہے کہ اس وقت سونے کی قیمت تقریباً 300 ڈالر فی اونس (ounce) تھی اور اب 1800  ڈالر فی اونس ہے، جو اس وقت سے چھ گنا زیادہ ہے، تو اب مجھے 6X40000= 240000 ڈالر واپس دوگے۔

اب معلوم یہ کرنا ہے کہ کیا اس شخص کا اس طرح زیادہ رقم لینا جائز ہے؟ کیا یہ سود کی شکل تو نہیں ہے؟ 

برائے مہربانی شرعی طور پر وضاحت فرمائیں۔

جواب

واضح رہے کہ قرضہ میں جو چیز لی جائے شرعاً اسی کا مثل لوٹانا لازم ہوتا ہے، خواہ اس کی قیمت بڑھ گئی ہو یا کم ہوگئی ہو۔

صورت مسئولہ میں جب سائل کے والد نے 40000 ڈالر قرض لیے تھے، تو اب والد کے قرضہ کی ادائیگی کےوقت  40000 ڈالر ہی لوٹائے جائیں گے، اگر چہ اس وقت ڈالر کی قیمت کے حساب سے سونے کی قیمت 300ڈالر فی اونس تھی اور موجودہ دور میں 1800 ڈالر فی اونس ہے اور قرض خواہ  کا قرض کی واپسی کے وقت 240000 ہزار ڈالر  کا مطالبہ کرنا شرعاً نا جائز  اور سود کے زمرے میں  داخل ہے۔

الدر المختار مع رد المحتار میں ہے:

"(استقرض من الفلوس الرائجة والعدالي فكسدت فعليه مثلها كاسدة) و (لا) يغرم (قيمتها) وكذا كل ما يكال ويوزن لما مر أنه مضمون بمثله فلا عبرة بغلائه ورخصه.

وفي الشامية تحته:

وإن استقرض دانق فلوس أو نصف درهم فلوس، ثم رخصت أو غلت لم يكن عليه إلا مثل عدد الذي أخذه، وكذلك لو قال أقرضني عشرة دراهم غلة بدينار، فأعطاه عشرة دراهم فعليه مثلها، ولا ينظر إلى غلاء الدراهم، ولا إلى رخصها."

(كتاب البيوع، فصل في القرض، ج:5، ص:162، ط:سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144311101359

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں