ایک شخص کے پاس ۳۰۰۰ ڈالر ہیں جو اس نے ۲۰۱۸ سے جمع کیے ہوئے ہیں، اس پر ابھی تک کچھ بھی زکاۃ ادا نہیں کی، سوال یہ ہے کہ وہ شخص کیا ہر سال کی زکاۃ دے گا؟ اور کس ریٹ کے حساب سے دے گا؟یاد رہے وہ شخص پاکستان میں رہتا ہے۔
اگر مذکورہ شخص نے 2018 سے اپنے 3000ڈالر کی زکات ادا نہیں کی ہے تو اس پر گزشتہ تمام سالوں کی زکات نکالنا ضروری ہےاور اس کا طریقہ یہ ہے کہ ڈالر کی موجودہ قیمت کے اعتبار سے گزشتہ ہر سال کے بدلے اس کا ڈھائی فیصد ادا کیا جائے گا، اور اس مقدار کو اگلے سال کی زکات نکالتے وقت منہا کیا جائے گا، اسی طرح ہر گزشتہ سال کی زکات نکالنے کے بعد اس رقم کو منہا کرکے آئندہ سال کی زکات کا حساب لگایا جائے گا۔
بدائع الصنائع فی ترتیب الشرائع میں ہے:
"وعند أبي يوسف ومحمد إن أدى من عينها يؤدي خمسة أقفزة في الزيادة والنقصان جميعا، كما قال أبو حنيفة: وإن أدى من القيمة يؤدي في النقصان درهمين ونصفا وفي الزيادة عشرة دراهم؛ لأن الواجب الأصلي عندهما هو ربع عشر العين وإنما له ولاية النقل إلى القيمة يوم الأداء فيعتبر قيمتها يوم الأداء، والصحيح أن هذا مذهب جميع أصحابنا؛ لأن المذهب عندهم أنه إذا هلك النصاب بعد الحول تسقط الزكاة سواء كان من السوائم أو من أموال التجارة."
(کتاب الزکاۃ،فصل :اموال التجارۃ،ج2،ص22،ط:دار الکتب العلمیۃ)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144312100810
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن