بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

شاپنگ مال میں میں دوکانیں تعمیر ہونے سے پہلے فروخت کرنا اور پھر کرایہ پر لینے کا حکم


سوال

ہمارے ہاں ایک مال بن رہا ہے، جو کہ 16،17 منزل ہے۔ نیچے شاپ درمیان میں آفس اور سب سے اوپر ہوٹل سوٹ، وہاں پر قسطوں پر بھی شاپ،آفس یا ہوٹل سوٹ(کمرہ)خرید سکتے ہیں اور وہ کہتے ہے کہ اگر آپ مکمل پیمنٹ ابھی کر دو ،تو ہم آپ کی شاپ یا کمرہ کا رینٹ دینا شروع کر دیں گے، جب کہ ابھی اسکا وجود ہی نہیں ہے، کیوں کہ ابھی وہ بننا شروع ہواہے، ابھی تو زمین کے نیچے ہی کام شروع ہوا ہے۔اور پانچ سال تک بناکر دیں گے،  مکمل پیمنٹ کرنے پر وہ %15کرایہ دیتے ہے۔یہ کرایہ لینا ٹھیک ہے یا نہیں؟

یہ طے ہو جاتا ہے کہ فلاں منزل میں فلاں شاپ یا فلاں ہوٹل سوٹ تمہارا ہےیعنی صرف نقشہ کی حد تک۔ برائے مہربانی رہنمائی فرما دیں۔ 

جواب

واضح رہے کہ جس  بلڈنگ  كی ابھی تک تعمیر نہ ہوئی ہو، اُس کے  فلیٹ جو صرف نقشے کی حد تک موجود ہوں، ان کی باقاعدہ خرید و فروخت  كرنا جائز نہیں ہے؛  اس لیے کہ یہ ایک معدوم چیز کی بیع ہے اور معدوم چیز کی بیع شرعا باطل ہے،البتہ  جواز  کی دو صورتیں ہیں:

1۔  ایک یہ ہے کہ جو مکان  لوگوں کو فروخت کئےجارہے ہوں اس کا کچھ نہ کچھ اسٹرکچر یعنی بنیادی ڈھانچاوغیرہ  بن چکا ہو، ایسی صورت میں اُس کا سودا کیا جاسکتا ہے۔

2۔  جس مکان کا ڈھانچہ بھی نہ بنا ہو  مثلاً ابھی ایک منزل بھی نہیں بنی اور تیسری منزل کے مکانات بیچے جا رہے ہوں تو یہ سودا جائز نہیں ہے، جب سودا ہی جائز نہیں تو وہ اس کا مالک ہی نہیں تو کرایہ پر کیسے دے گا؟ البتہ اس صورت میں وعدۂ بیع  (خریداری کا وعدہ)  کیا جاسکتا ہے،  یعنی صرف بکنگ کی جاسکتی ہے   کہ  مثلاً    فلاں فلیٹ فلاں کو  فروخت کیا جائے گا، اور اس بکنگ کی مد میں اس سے ایڈوانس رقم بھی لینا جائز ہو گا۔

صورتِ مسئولہ میں جو منزل اب تک تیار ہی نہ ہوئی ہو اور اُس کا ڈھانچہ بھی کھڑا نہ ہوا ہو اُس مکان کا کرایہ وصول کرنا کسی صورت جائز نہیں؛ کیوں کہ کرایہ داری کے معاملہ میں مالک مکان  کرایہ دار کو کسی منفعت کا مالک بناتا ہے، اور یہ اُسی وقت ممکن ہے جب منفعت وصول کرنے کے لیے فلیٹ  کا وجود ہو، اگر فلیٹ کا وجود ہی نہ ہو گا تو کرایہ داری کا معاملہ ہی درست نہیں ہو گا اور کرایہ وصول کرنا بھی درست نہیں ہو گا۔

بدائع الصنائع فی ترتیب الشرائع میں ہے:

"وأما الذي يرجع إلى المعقود عليه فأنواع (منها) : أن يكون موجودا فلا ينعقد بيع المعدوم الخ."

(کتاب البیوع،فصل فی الشرائط اللذی یرجع الی المعقود علیه،ج:5، ص:138، ط:سعید)

فتاویٰ شامی    میں ہے:

"وفي جامع الفصولين أيضا: لو ذكرا البيع بلا شرط ثم ذكرا الشرط على وجه العقد جاز البيع ولزم الوفاء بالوعد، إذ المواعيد قد تكون لازمة فيجعل لازما لحاجة الناس تبايعا بلا ذكر شرط الوفاء ثم شرطاه يكون بيع الوفاء".

(کتاب البیوع، باب البیع الفاسد، ج:5، ص:84، ط:ایچ ایم سعید)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"وشرعاً (تمليك نفع) مقصود من العين (بعوض) حتى لو استأجر ثياباً أو أواني؛ ليتجمل بها أو دابة ليجنبها بين يديه أو داراً لا ليسكنها أو عبداً أو دراهم أو غير ذلك لا ليستعمله بل ليظن الناس أنه له فالإجارة فاسدة في الكل، ولا أجر له لأنها منفعة غير مقصودة من العين".

(كتاب الإجارة، ج:6، ص:4، ط:سعيد)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144502102273

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں