بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

دکان میں پڑے موبائلوں کے مالک معلوم نہ ہو تو موبائلوں کیا کرے؟


سوال

میں موبائل ریپیرنگ کا کام کرتا ہوں، میرے پاس لوگوں کے موبائل پڑے ہیں کافی عرصہ ہو چکا ہے تین چار سال سے بھی اوپر ،ان لوگوں کا کوئی علم نہیں وہ لوگ مر چکے ہیں یا وہ اپنی چیز بھول چکے ہیں،اب میں ان چیزوں کا کیا کروں ؟ کیونکہ میں اب اس شہر سے اپنی دکان کہیں اور دوسرے شہر میں منتقل کر رہا ہوں۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں مذکورہ اشیاء جو لوگ آپ کے پاس رکھ کر بھول جاتے ہیں اور واپس نہیں لیتے یہ اشیاء آپ کے پاس امانت ہیں، اور امانت کاحکم یہ ہے کہ جس شخص نے امانت رکھوائی ہے اسے حتی الامکان تلاش کیاجائے اور اس کے بارے میں لوگوں سے معلومات حاصل کی جائیں، اگروہ شخص مل جاتاہے تو امانت اس کے حوالے کی جائے اور اگر کسی بھی طرح امانت رکھوانے والے کا پتا نہ چلے تو اس شخص کے ورثاء کو تلاش کیاجائے، ورثاء مل جانے کی صورت میں امانت ان کے حوالے کی جائے،  اگر ان میں سے کوئی صورت بھی ممکن نہ ہو تو   امانت کا حکم "لقطہ" (گم شدہ چیز) کا ہوگا، یعنی اس صورت میں بھی بہتر تو یہی ہوگا کہ آپ  اس چیز (موبائل ) کو محفوظ  رکھیں، تاکہ مالک آجانے کی صورت میں مشکل پیش نہ آئے۔ اور  یہ بھی جائز ہے کہ آپ  یہ  چیز کسی مستحقِ زکات کو صدقہ کردیں، اور اگرآپ  خود   زکاۃ کے  مستحق ہو تو خود بھی استعمال کرسکتے ہیں۔ البتہ صدقہ کرنے یاخود استعمال کرنے کے بعد صاحبِ مال آجاتاہے تو اسے اپنی امانت کے مطالبے کا اختیارحاصل ہوگا۔

مبسوط سرخسی میں ہے:

"فأما (النوع الثاني) وهو ما يعلم أن صاحبه يطلبه فمن يرفعه فعليه أن يحفظه ويعرفه ليوصله إلى صاحبه، وبدأ الكتاب به ورواه عن إبراهيم قال في اللقطة: يعرفها حولا، فإن جاء صاحبها وإلا تصدق بها، فإن جاء صاحبها فهو بالخيار إن شاء أنفذ الصدقة، وإن شاء ضمنه."

(کتاب اللقطة جلد ۱۱ ص : ۳ ط : دارالمعرفة)

لہٰذا آپ فی الحال  مذکورہ سامان(امانت) کو محفوظ رکھیں، اور امانت رکھوانے والے شخص یا اس کے ورثاء کی تلاش حتی الوسع جاری رکھیں، اگر پوری کوشش کے بعد بھی امانت رکھوانے والے شخص یا اس کے کسی وارث کا علم نہ ہو تواس صورت میں آپ ان کا سامان ان کی طرف سے صدقہ کرسکتے ہیں اور اگر مستحق ہوں تو خود بھی استعمال کرسکتے ہیں، البتہ  اگر سامان کا مالک آجائے تواس کےمطالبے پر اس کی امانت واپس کرنالازم ہوگی۔(امدادالاحکام،کتاب الودیعہ،ص:624،ط:مکتبہ دارالعلوم کراچی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144406100205

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں