بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

دوکان میں موجود بوریوں میں سے 100 بوریاں خریدنے کا حکم


سوال

کیا فرماتے ہیں علماء دین اس مسئلہ میں زید کے چاول کی دوکان ہے۔ عمر آکر زید سے اس طرح چاول کی خریداری کرتا ہے۔ زید سے پوچھتا ہے کہ چاول کی بوری مثلا ۵۰ کلو قیمت کتنی ہے۔ وہ قیمت بتا دیتا ہے۔ اور اس کے ساتھ  قیمت طے کرنے کے بعد سو بوریاں خریدتا ہے۔اور وہ بوریاں سٹور میں پڑی رہتی ہیں ۔ عمر قبض کرنے سے پہلے اس سے کہتا ہے یہ بوریاں یہی پڑی رہے۔جب چاول مہنگا ہوجائے گا تو میں آپ سے لے جاوں گا ۔ اب چاول کی قیمت بڑھ گئی تو عمر آکر زید سے چاول کی ۵۰ بوریاں مانگتا ہے۔ اور زید ان کو دینے سے انکار کر دتا ہے اور کہتا ہے کہ اب اس کی قیبت بڑھ گئی چکی ہے۔ لہذا آپ یہ پچاس والی موجود ہ ریٹ سے لے جاسکتے ہیں۔ اب پوچھنا یہ ہے کہ شروع میں عمر کے زید سے پچاس بوریوں کی بیع درست تھی؟ اور عمر اب پرانی قیمت سے وہ پچاس بوریاں لے جاسکتا ہے یا نہیں؟واضح رہے جب عمر زید سے بوریاں خرید رہا تھا تو وہ بوریاں اسٹور میں پڑی تھیں۔ خریدنے کے موقع پر ان کو اشارہ ہوا اور نہ عمر نے اپنے قبضے میں لیا اور نہ اس کی تعیین کی؟ سوال کے ساتھ ایک فتوی بھی منسلک ہے اس پر بھی رائے کا اظہار فرمائیں۔

جواب

واضح رہے کہ خرید و فروخت کے معاملہ کے درست ہونے کے لیے شرط یہ ہے کہ مبیع (جو چیز خریدی اور بیچی جارہی ہے) بائع کے قبضہ میں ہو اور بائع حوالہ کرنے پر قادر ہو اور ایسی جہالت نہ ہو کہ خریدنے والے اور بیچنے والے کے درمیان جھگڑے کا ذریعہ  ہو ، پس اگر مبیع (جو چیز خریدی اور بیچی جارہی ہے) کو ادنی تعیین بھی حاصل ہوگئی  یعنی مبیع مکمل طور پر متعین نہیں ہوئی لیکن اس کی ذات کا علم ہوگیا  اور اس میں ایسی جہالت نہ رہی جو  جھگڑے کی طرف لیکر جائے تو پھر خرید و فروخت شرعا درست ہوجائے گی ۔

لہذا صورت مسئولہ میں جب  خریدار نے  چاول کی  سو (100) بوریوں کی  قیمت طے کرلی ، سو (100)  بوریوں کے بقدر  چاول بیچنے والے کے قبضہ   میں موجود  تھے   اور  اسی مجلس میں خریدنے والے اور بیچنے والے کے درمیان یہ بات بھی طے ہوگئی کہ چاول کی بوریاں یہیں دوکان میں پڑی رہیں گی بعد میں اٹھا لی جائیں گو کہ سو (100)بوریاں الگ نہیں کی گئی تو ان سب امور سے مبیع کو ادنی تعیین حاصل ہوگئی اور  شرعا یہ خرید و فروخت کا معاملہ درست ہوگیا  ہے۔ نیز بیچنے والے پر لازم ہے کہ وہ اسی پرانے داموںمیں خریدار کو مال حوالے کردے۔

نیز منسلکہ فتوی میں  مذکورہ صورت میں بیع صحیح نہ ہونے پر دو قسم کے جزئیات سے استدلال کیاگیا  ہے اور وہ استدلال درست نہیں اور اس کی چند وجوہات ہیں اور وہ یہ ہیں:

الف) اگر مبیع غیر متعین ہو تو خریدار کے مہیا کردہ ظرف میں  مبیع ڈالنے سے  بھی بائع کا  نہ قبضہ ثابت ہوتا ہے نہ بیع منعقد  ہوتی ہے لہذا یہ بات ثابت ہوئی  کہ غیر متعین مبیع میں بیع منعقد نہیں ہوتی ہے۔

مذکورہ جزئیات سے استدلال درست نہیں کیونکہ یہ جزئیات فقہاء کرام  نے سلم کی بحث اور قبضہ کی بحث میں ذکر کیے ہیں اور غیر متعین مبیع کی تشریح فقہاء کرام نے  مسلم فیہ کے ساتھ کی ہے یعنی وہ ایسی مبیع ہوتی ہے جو مسلم الیہ کے ذمہ پر واجب ہوتی ہے اور اس کو ادنی تعیین بھی حاصل نہیں ہوتی جبکہ مذکورہ مسئلہ کا تعلق بیع سلم سے نہیں ہے  لہذا ان جزئیات سے استدلال درست نہیں ہوگا۔

ب) خیار تعیین مثلیات میں جائز نہیں ہے   یعنی تین مثلی چیزوں میں سے ایک کی خریدار ی کے اختیار کے ساتھ خیار رکھنا  جائز نہیں ہے جبکہ یہ صورت قیمیات میں جائز ہے لہذا مثلی چیز کی مکمل تعیین کے بغیر بیع جائز نہیں ہوگی۔

اس جزئیہ سے بھی استدلال درست نہیں کیونکہ    مذکورہ جزئیہ کا تعلق خیار تعیین سے ہے جس میں تین میں سے کوئی ایک چیز خریدی جائے اس اختیار کے ساتھ  کے ان میں سے کوئی بھی ایک اختیار کر لی جائے گی جبکہ ہمارا مسئلہ خیار تعیین کا نہیں ہے بلکہ دوکان میں موجود بوریوں میں سے پچاس بوریاں خریدنے پر ہے اور خیار کا اس بیع میں کوئی ذکر نہیں ہے۔ لہذا خیار تعیین کے جزئیہ سے استدلا ل کرنا درست نہیں ہے خاص طور پر جب کہ مذکورہ صورت  کے لیے کتب فقہ میں صریح جزئیات موجود ہیں مثلا  "ولو قال: بعتك قفيزا من هذه الصبرة صح وإن كان قفيزا من صبرة مجهولا لكن هذه جهالة لا تفضي إلى المنازعة؛ لأن الصبرة الواحدة متماثلة القفزان  (بدائع الصنائع ج نمبر  ۵ ص نمبر  ۱۵۶، دار الکتب العلمیۃ)"یل میں دیگر جزئیات بھی موجود ہیں)

ج) مبیع کو دیکھے بغیر بھی خریدنا جائز ہے، بیع صحیح ہوتی ہے البتہ مبیع کو دیکھنے کے بعد لینے یا نہ لینے کا اختیار ہوتا ہے، اس کو خیار رویت کہتے ہیں، حالانکہ اس صورت میں صرف مبیع زبانی طور پر متعین ہوئی ہے، البتہ مشتری کے لئے آگے فروخت کرنے کے لیے مبیع کو قبضہ میں لینا ضروری ہے۔

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائعمیں ہے:

"(ومنها) أن يكون المبيع معلوما وثمنه معلوما علما يمنع من المنازعة.

فإن كان أحدهما مجهولا جهالة مفضية إلى المنازعة فسد البيع، وإن كان مجهولا جهالة لا تفضي إلى المنازعة لا يفسد؛ لأن الجهالة إذا كانت مفضية إلى المنازعة كانت مانعة من التسليم والتسلم فلا يحصل مقصود البيع، وإذا لم تكن مفضية إلى المنازعة لا تمنع من ذلك؛ فيحصل المقصود وبيانه في مسائل: إذا قال: بعتك شاة من هذا القطيع أو ثوبا من هذا العدل فالبيع فاسد؛ لأن الشاة من القطيع والثوب من العدل مجهول جهالة مفضية إلى المنازعة لتفاحش التفاوت بين شاة وشاة، وثوب وثوب، فيوجب فساد البيع، فإن عين البائع شاة أو ثوبا وسلمه إليه ورضي به جاز ويكون ذلك ابتداء بيع بالمراضاة؛ ولأن البياعات للتوسل إلى استيفاء النفوس إلى انقضاء آجالها والتنازع يفضي إلى التفاني فيتناقض؛ ولأن الرضا شرط البيع والرضا لا يتعلق إلا بالمعلوم والكلام في هذا الشرط في موضعين أحدهما: أن العلم بالمبيع والثمن علما مانعا من المنازعة شرط صحة البيع، والثاني: في بيان ما يحصل به العلم بهما..... ولو قال: بعتك قفيزا من هذه الصبرة صح وإن كان قفيزا من صبرة مجهولا لكن هذه جهالة لا تفضي إلى المنازعة؛ لأن الصبرة الواحدة متماثلة القفزان بخلاف الشاة من القطيع وثوب من الأربعة؛ لأن بين شاة وشاة تفاوتا فاحشا وكذا بين ثوب وثوب والله سبحانه وتعالى أعلم........ «وجملة الكلام فيه أن المبيع لا يخلو إما إن كان من المثليات من المكيلات والموزونات والعدديات المتقاربة وإما أن يكون من غيرها من الذرعيات والعدديات المتفاوتة ولا يخلو إما إن سمى جملة الكيل والوزن والعدد والذرع في البيع وإما إن لم يسم، أما المكيلات: فإن لم يسم جملتها بأن قال بعت منك هذه الصبرة كل قفيز منها."

(کتاب البیوع، فصل في شرائط الصحة في البيوع ج نمبر ۵ ص نمبر ۱۵۶، دار الکتب العلمیۃ)

فتاوی شامی میں ہے:

"(وشرط لصحته معرفة قدر) مبيع وثمن (ووصف ثمن) كمصري أو دمشقي. (غير مشار) إليه (لا) يشترط ذلك في (مشار إليه) لنفي الجهالة بالإشارة.

[تنبيه] ظاهر كلامه كالكنز يعطى أن معرفة وصف المبيع غير شرط، وقد نفى اشتراطه في البدائع في المبيع والثمن، وظاهر الفتح إثباته فيهما، ووفق في البحر بحمل ما في البدائع على المشار إليه أو إلى مكانه، وما في الفتح على غيره لمن حقق في النهر أن ما فهمه من الفتح وهم فاحش؛ لأن كلام الفتح في الثمن فقط. قلت: وظاهره الاتفاق على اشتراط معرفة القدر في المبيع والثمن، وإنما الخلاف في اشتراط الوصف فيهما وللعلامة الشرنبلالي رسالة سماها: نفيس المتجر بشراء الدرر، حقق فيها أن المبيع المسمى جنسه لا حاجة فيه إلى بيان قدره ولا وصفه ولو غير مشار إليه أو إلى مكانه؛ لأن الجهالة المانعة من الصحة تنتفي بثبوت خيار الرؤية؛ لأنه إذا لم يوافقه يرده فلم تكن الجهالة مفضية إلى المنازعة واستدل على ذلك بفروع صححوا فيها البيع بدون بيان قدر ولا وصف، منها ما قدمناه من صحة بيع جميع ما في هذا البيت أو الصندوق، وشراء ما في يده من غصب أو وديعة، وبيع الأرض مقتصرا على ذكر حدودها وشراء الأرض الخربة المارة عن القنية. ومنها: ما قالوا لو قال: بعتك عبيدي، وليس له إلا عبد واحد صح، بخلاف بعتك عبدا بدون إضافة، فإنه لا يصح في الأصح.

ومنها: لو قال: بعتك كرا من الحنطة فإن لم يكن كل الكر في ملكه بطل ولو بعضه في ملكه بطل في المعدوم وفسد في الموجود، ولو كله في ملكه لكن في موضعين أو من نوعين مختلفين، لا يجوز ولو من نوع واحد في موضع واحد جاز وإن لم يضف البيع إلى تلك الحنطة، وكذا لو قال: بعتك ما في كمي فعامتهم على الجواز وبعضهم على عدمه وأول قول الكنز ولا بد من معرفة قدر ووصف ثمن، بأن لفظ " قدر " غير منون مضافا لما بعده من الثمن مثل قول العرب: بعتك بنصف وربع درهم. قلت: ما ذكره من الاكتفاء بذكر الجنس عن ذكر القدر والوصف يلزم عليه صحة البيع في نحو: بعتك حنطة بدرهم ولا قائل به، ومثله بعتك عبدا أو دارا وما قاله من انتفاء الجهالة بثبوت خيار الرؤية مدفوع بأن خيار الرؤية قد يسقط برؤية بعض المبيع، فتبقى الجهالة المفضية إلى المنازعة، وكذا قد يبطل خيار الرؤية قبلها، بنحو بيع أو رهن لما اشتراه كما سيأتي بيانه في بابها؛ ولذا قال: المصنف هناك: صح البيع والشراء لما لم يرياه، والإشارة إليه أو إلى مكانه شرط الجواز اهـ. فأفاد أن انتفاء الجهالة بهذه الإشارة شرط جواز أصل البيع ليثبت بعده خيار الرؤية. نعم: صحح بعضهم الجواز بدون الإشارة المذكورة، لكنه محمول على ما إذا حصل انتفاء الجهالة بدونها ولذا قال: في النهاية هناك: صح شراء ما لم يره يعني شيئا مسمى موصوفا أو مشارا إليه أو إلى مكانه وليس فيه غيره بذلك الاسم. اهـ.

وقال: في العناية قال: صاحب الأسرار؛ لأن كلامنا في عين هي بحالة لو كانت الرؤية حاصلة لكان البيع جائزا. اهـ. وفي حاوي الزهدي: باع حنطة قدرا معلوما، ولم يعينها لا بالإشارة، ولا بالوصف لا يصح. اهـ.

هذا والذي يظهر من كلامهم تفريعا وتعليلا أن المراد بمعرفة القدر، والوصف ما ينفي الجهالة الفاحشة وذلك بما يخصص المبيع عن أنظاره، وذلك بالإشارة إليه لو حاضرا في مجلس العقد، وإلا فبيان مقداره مع بيان وصفه لو من المقدرات، كبعتك كر حنطة بلدية مثلا بشرط كونه في ملكه، أو ببيان مكانه الخاص كبعتك ما في هذا البيت، أو ما في كمي أو بإضافته إلى البائعالجهالة اليسيرة التي لا تنافي صحة البيع لارتفاعها بثبوت خيار الرؤية، فإن خيار الرؤية إنما يثبت بعد صحة البيع لرفع تلك الجهالة اليسيرة لا لرفع الفاحشة المنافية لصحته فاغتنم تحقيق هذا المقام بما يرفع الظنون والأوهام، ويندفع به التناقض واللوم عن عبارات القوم كبعتك عبدي، ولا عبد له غيره، أو بيان حدود أرض ففي كل ذلك تنتفي الجهالة الفاحشة عن المبيع، وتبقى."

(کتاب البیوع ج نمبر ۴ ص نمبر ۵۲۹،ایچ ایم سعید)

فتاوی شامی میں ہے:

"(و) صح (في) ما سمى (صاع في بيع صبرة كل صاع بكذا) مع الخيار للمشتري لتفرق الصفقة عليه، ويسمى خيار التكشف (و) صح (في الكل إن) كيلت في المجلس لزوال المفسد قبل تقرره أو (سمى جملة قفزانها).

(قوله: في بيع صبرة) هي الطعام المجموع سميت بذلك لإفراغ بعضها على بعض ومنه قيل: للسحاب فوق السحاب صبير قاله الأزهري، وأراد صبرة مشارا إليها كما سيأتي

 (قوله: أو سمى جملة قفزانها) وكذا لو سمى ثمن الجميع ولم يبين جملة الصبرة، كما لو قال: بعتك هذه الصبرة بمائة درهم، كل قفيز بدرهم فإنه يجوز في الجميع اتفاقا بحر. والحاصل: أنه إن لم يسم جملة المبيع وجملة الثمن صح في واحد، وإن سمى أحدهما صح في الكل كما لو سمى الكل، ويأتي بيان ما لو ظهر المبيع أزيد أو أنقص، وبقي ما إذا باع قفيزا مثلا من الصبرة والظاهر أنه يصح بلا خلاف للعلم بالمبيع فهو كبيع الصبرة كل قفيز بكذا إذا سمى جملة قفزانها ولذا أفتى في الخيرية بصحة المبيع بلا ذكر خلاف حيث سئل فيمن اشترى غرائر معلومة من صبرة كثيرة، فأجاب: بأنه يصح، ويلزم ولا جهالة مع تسمية الغرائر. اهـ"

(کتاب البیوع ج نمبر ۴ ص نمبر ۵۲۹،ایچ ایم سعید)

 البحر الرائق  میں ہے:

"وفي القنية دفع إلى بائع حنطة خمسة دنانير ليأخذ منه حنطة، وقال له بكم تبيعها، فقال مائة بدينار فسكت المشتري، ثم طلب منه الحنطة ليأخذها، فقال البائع غدا أدفع إليك، ولم يجر بينهما بيع وذهب المشتري فجاء غدا ليأخذ الحنطة وقد تغير السعر فليس للبائع أن يمنعها منه بل عليه أن يدفعها بالسعر الأول. قال - رضي الله عنه - وفي هذه الواقعة أربعة مسائل: أحدها الانعقاد بالتعاطي. الثانية الانعقاد به في الخسيس والنفيس وهو الصحيح. الثالثة الانعقاد به من جانب واحد. والرابعة كما ينعقد بإعطاء المبيع ينعقد بإعطاء الثمن اهـ.

قلت: وفيها مسألة خامسة أنه ينعقد به، ولو تأخرت معرفة المثمن لكون دفع الثمن قبل معرفته."

(کتاب البیوع، شرائط البیع، البیع بالتعاطی ج نمبر ۵ ص نمبر ۲۹۳، دار الکتاب الاسلامی)

 البحر الرائق  میں ہے:

"ولو باعه كرا من حنطة، فإن لم يكن في ملكه فالبيع باطل، وإن كان في ملكه البعض بطل في المعدوم وفسد في الموجود، وإن كان في ملكه، فإن كانت في موضعين أو من نوعين مختلفين لا يجوز البيع، وإن كانت من نوع واحد في موضع واحد إلا أنه لم يضف البيع إلى تلك الحنطة لكن قال بعت منك كرا من حنطة جاز البيع، وإن علم المشتري بمكانها كان له الخيار إن شاء أخذها في ذلك المكان بذلك الثمن، وإن شاء تركها. اهـ.

وفي موضع آخر منها، ولو لم يضفها إلى نفسه جاز البيع وللمشتري الخيار، وإن كانت في موضعين، كذا في الخانية، وذكر في الظهيرية بعد هذا الفرع، وهذا دليل على أنه يعتبر مكان البيع لا مكان المبيع."

(کتاب البیوع، شرائط البیع،  ج نمبر ۵ ص نمبر ۲۹۵، دار الکتاب الاسلامی)

 فتاوی قاضی خان میں ہے:

"رجل عنده حنطة او مكيل اخر او موزون ظن انها اربعة الاف من، فباعها من اربعة نفر لكل واحد منهم الف من بثمن معلوم ثم وجده ناقصا، قال بعضهم: لهم الخيار ان شاؤوا اخذوا من الموجود بحصته من الثمن و ان شاؤوا تركوا. و الصحيح  ما قال بعضهم : ان الجواب فيه علي التفصيل ان باع منهم حملة فكذلك و ان باع من علي التعاقب، فالنقصان علي الاخر دون الاولين و هو بالخيار: ان شاء اخذها  و ان شاء ترك."

(کتاب البیوع ، باب البیع الفاسد ج نمبر ۲  ص نمبر  ۲۳،  دار الکتب العلمیۃ)

 فتاوی شامی میں ہے:

"(أمره) أي المسلم إليه (رب السلم أن يكيل المسلم فيه) في ظرفه (فكاله في ظرفه) أي وعاء رب السلم (بغيبته لم يكن قبضا) أما بحضرته فيصير قابضا بالتخلية (أو أمر) المشتري (البائع بذلك فكاله في ظرفه) ظرف البائع (لم يكن قبضا) لحقه (بخلاف كيله في ظرف المشتري بأمره) فإنه قبض لأن حقه في العين والأول في الذمة

قوله لم يكن قبضا لحقه) لأن رب السلم حقه في الذمة ولا يملكه إلا بالقبض فلم يصادف أمره ملكه، فلا يصح فيكون المسلم إليه مستعيرا للظرف جاعلا فيه ملك نفسه كالدائن إذا دفع كيسا إلى المدين وأمره أن يزن دينه، ويجعله فيه لم يصر قابضا وفي مسألة البيع يكون المشتري استعار ظرف البائع، ولم يقبضه فلا يصير بيده فكذا ما يقع فيه فصار كما لو أمره أن يكيله في ناحية من بيت البائع لأن البيت بنواحيه في يد البائع بحر.

(قوله لأن حقه في العين) لأنه ملكه بنفس الشراء، فيصح أمره لمصادفته ملكه، فيكون قابضا بجعله في الظرف ويكون البائع وكيلا في إمساك الظرف فيكون الظرف والواقع فيه في يد المشتري حكما قال في الهداية: ألا ترى أنه لو أمره بالطحن كان الطحين في السلم للمسلم إليه وفي الشراء للمشتري لصحة الأمر، وكذا إذا أمره أن يصبه في البحر في السلم يهلك من مال المسلم إليه وفيالشراء من مال المشتري اهـ"

(کتاب البیوع،باب السلم ج نمبر ۵ ص نمبر ۲۲۰، ایچ ایم سعید)

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع میں ہے:

"(ومنها) القبض في بيع المشتري المنقول فلا يصح بيعه قبل القبض؛ لما روي أن النبي - صلى الله عليه وسلم - «نهى عن بيع ما لم يقبض» ، والنهي يوجب فساد المنهي."

(کتاب البیوع، فصل فی شرائط الصحۃ فی البیوع ج نمبر ۵ ص نمبر ۱۸۰، دار الکتب العلمیۃ)

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع میں ہے:

"(ومنها) أن يكون مقدور التسليم عند العقد، فإن كان معجوز التسليم عنده لا ينعقد."

(کتاب البیوع، فصل فی الشرط الذی یرجع الی المعقود علیہ ج نمبر ۵ ص نمبر ۱۴۷، دار الکتب العلمیۃ)

فقط اوللہ اعلم


فتوی نمبر : 144405100783

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں