بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

سودی منافع کی رقم کے وصول کرنے کا حکم


سوال

ایک پولیس والا شہید ہو گیا اور حکومت وقت نے 8 لاکھ روپیہ اس کے بچے کے نام اکاونٹ کھول کر اس میں سود پر رکھ دیے۔ اب 10 سال بعد وہ 16 لاکھ ہوگئے ہیں اور بچہ بالغ ہے۔ تو اس کے لیے اس رقم کا کیا حکم ہے؟

جواب

واضح رہے بینک کے سیونگ اکاؤنٹ میں رقم رکھوانے پر بینک کی طرف سے جو منافع ملتا ہے وہ سود ہونے کی وجہ سے ناجائز اور حرام ہے،اور جس طرح سودی رقم کا استعمال کرنا حرام ہے اسی طرح سودی رقم کو وصول کرنا بھی حرام ہے، نیز بینک کی طرف سے اکاؤنٹ میں یہ رقم ڈالے جانے کے باوجود آدمی اس سودی رقم کا مالک نہیں بنتا ہے ، چناں چہ کسی بھی صورت اس سودی رقم کا اکاؤنٹ سے نکلوانا اور وصول کرنا جائز نہیں ہے، چاہے اپنے استعمال کی نیت ہو یا کسی اور کو دینے کی نیت ہو۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں مذکورہ بچے کے لیے صرف اتنی رقم نکلوانا درست ہے جو رقم حکومت کی جانب سے مذکورہ بچے کے لیے بینک میں رکھوائی گئی تھی،اس رقم پر ملنے والے نفع کا وصول کرنا جائز نہیں ہے۔

الجامع لاحکام القرآن (تفسیر قرطبی)  میں ہے:

"إن سبيل التوبة مما بيده في الاموال الحرام إن كانت من ربا، فليردها علي من اربي عليه، ويطلبه إن لم يكن حاضرا فإن أيس من وجوده فليتصدق بذالك عنه."

(سورۃ البقرۃ، رقم الآیۃ:275، ج:3، ص:348،ط:دار احیاء التراث العربی بیروت)

فتاوی عالمگیری (الفتاوی الہندیۃ)  میں ہے:

"ان کان المال بمقابلة المعصية فكان الأخذ معصية والسبيل في المعاصي ردها وذلك هاهنا برد المأخوذ إن تمكن من رده بأن عرف صاحبه وبالتصدق به إن لم يعرفه ليصل إليه نفع ماله إن كان لا يصل إليه عين ماله."

(کتاب الکراہیۃ، الباب الخامس عشر فی کسب الحرام، ج:5، ص:349،ط:مکتبة حقانیة)

فقط والله اعلم

 


فتوی نمبر : 144401101868

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں