1۔ ایک دکاندار دودھ میں خود پانی ملا کر فروخت کرے، اور گاہک کو یہ بتا دے کہ دودھ ملاوٹ شدہ ہے، کیا اس عمل میں بھی وہ گناہ گار ہو گا؟
2۔ اگر گاہک پوچھے کہ یہ دودھ خالص ہے تو دکاندار کوئی جواب نہ دے، تو کیا اس صورت میں بھی گناہ گار ہوگا؟
3۔گاہک پوچھے کہ کیایہ دودھ خالص ہے؟ اور دکاندار یہ کہہ دے کہ آج کے دور میں کیا چیز خالص ہے؟ تو کیا اتنا بھی کافی ہے یا گناہ گار ہو گا؟
1۔ واضح رہے کہ دودھ میں پانی ملانے سے متعلق اصولی بات یہ ہے کہ: دودھ میں پانی ملاکر بیچنے کی ممانعت اُس وقت ہے جب کہ پانی ملے ہوئے دودھ کو خالص دودھ کہہ کر بیچا جائے اَگر گاہک کو پہلے ہی بتادیا جائے کہ اس میں پانی ملا ہوا ہے اور اُس کی اتنی قیمت ہے، اور گاہک اس کو بخوشی خریدے، تو شرعاً اس میں کوئی ممانعت نہیں ہے، اور دکاندار گناہ گار نہیں ہوگا۔
2۔ اگر گاہک کے پوچھنے پر دکاندار خاموش رہے اور ملاوٹ شدہ دودھ کے بارے میں یہ نہ بتائے کہ اس میں پانی ملایا گیا ہے تو دکاندار گنہگار ہوگا ۔
3۔ اتنا کہہ دینا کافی نہیں ہے کہ "آج کے دور میں کیا چیز خالص ہے؟" لہذا اگر گاہک کو ان الفاظ سے یہ معلوم نہ ہوتا ہو کہ اس دودھ میں ملاوٹ ہے تو اس طرح دودھ بیچنا ناجائز ہے، اور دکاندار گناہ گار ہوگا۔
سننِ ابی داؤد میں ہے:
"عن أبي هريرة: أن النبي -صلى الله عليه وسلم- نهى عن بيع الغرر."
(كتاب البيوع، باب في بيع الغرر، ج:3، ص: 254، ط:المكتبة العصرية)
بذل المجہود میں ہے:
"عن أبى هريرة: أن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - مر برجل يبيع طعاما، فسأله: "كيف تبيع؟ "، فأخبره، فأوحى إليه: أن أدخل يدك فيه، فأدخل يده فيه فإذا هو مبلول، فقال رسول الله -صلى الله عليه وسلم -: "ليس منا من غش"."
(کتاب البیوع،باب فی النھی عن الغش،ج:11، ص:166، ط:دراسات الإسلامية)
شرح النووی علی الصحیح المسلم میں ہے:
"اي بين كل واحد لصاحبه مايحتاج إلي بيانه من عيب ونحوه في السلعة والثمن وصدقه في ذالك."
(كتاب البيوع، باب ثبوت خيار المجلس للمتبايعين، ج:2، ص:6، ط:قدیمی)
اعلاء السنن میں ہے:
''قال العبد الضعیف: وقال الموفق في ''المغنی'' من علم بسلعتہ عیباً لم یجز بیعھا حتی یبیّنہ للمشتری، فإن لم یبینہ فھو آثم عاص نص علیہ أحمد، لماروی حکیم بن حزام عن النبي صلی اﷲ علیہ وسلم، أنہ قال: البیعان بالخیار مالم یتفرقا فإن صدقا وبینا بورک لھما، وإن کذبا وکتما محقت برکۃ بیعھما''.
(کتاب البیوع، باب خیار العیب، ج:14، ص:54، ط:إدارۃ القرآن، کراتشي)
فتاویٰ محمودیہ میں ہے:
"الجواب حامداً ومصلیاً:
"جب وہ دھوکہ نہیں دیتے ، بل کہ کہہ دیتے ہیں کہ ہم نے اس (دودھ)میں پانی ملارکھا ہے تو شرعاً درست ہے۔"
(کتاب البیوع، بیع مکروہ کا بیان، ج:16، ص:144، ط:اِدارۃ الفاروق کراچی)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144504102244
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن