بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

8 ذو القعدة 1445ھ 17 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

دودھ بڑھانے کے لیے جانور کو انجیکش لگانا / اجارہ فاسدہ کی ایک صورت


سوال

۱۔ میرا دودھ کا کاروبار ہے ، جانوروں کو دودھ کے لیے ایک انجیکشن لگاتے ہیں، تاکہ زیادہ دودھ دے، لیکن حکومت کی طرف سے ایسے انجیکشن لگانے پر پابندی ہے، اس طرح انجیکشن لگانے کا کیا حکم ہے؟ اس دودھ سے کمائی ہوئی روزی کا کیا حکم ہے؟

۲۔ بعض لوگ اپنے جانور بچے سمیت کسی کوپالنے کے لیے دیتے ہیں، لیکن پھر دوماہ کے بعد بچہ واپس مالک لے لیتاہے، البتہ اس کی ماں اس بندہ کے پاس ایک سال تک ہوتاہے، شروع میں جانور کا مالک اس آدمی سے تقریبا ۴۰ یا ۵۰ ہزار روپے لیتے ہیں، پھر وہی آدمی کے پاس یہ جانور ایک سال تک ہوتاہے، اسی دوران اس کا خوراک ،علاج کا خرچہ اسی آدمی کی ذمہ داری ہوتی ہے اور اس ایک سال کے دوران جانور کے دودھ سے وہی آدمی فائدہ لیتاہے، اور اگر جانور مرجائے تو تاوان مالک کا ہوتاہے، تو ایسی معاملہ کا کیا حکم ہے؟ اگر ناجائز ہے تو جواز کی صورت کیا ہوگی؟

جواب

۱۔حکومت نے مذکورہ انجیکشن پر سخت مضر صحت ہونے کی وجہ سے پابندی لگائی ہوئی ہے، لہذا مضر صحت ہونے اور ملکی قوانین میں ممنوع ہونے کی وجہ سے بھینسوں کو اس طرح کی انجیکشن لگانا اور اس کے کاروبار   کرنا قانونا جرم ہے اور پکڑے جانے کی صورت میں ہتک عرض اور ذلت کا اندیشہ  بھی ہے، جب کہ شرعا اپنے آپ کو اس طرح ذلت کے مواقع میں دھکیلنا جائز نہیں ہے، اس لیے  جانوروں کو انجیکشن لگانے سے اور ایسی خریدوفروخت سے  احتراز کرنا واجب ہے، اور احتراز نہ کرنے پر سائل گناہ گار ہوجائے گا،البتہ  اب تک اس دودھ سے کمائی ہوئی روزی اس کے لیے حرام نہیں ہوگا۔

۲۔صورتِ مسئولہ میں جانور کے مالک کا کچھ رقم (۴۰ یا ۵۰ ہزار)لے کر اپنا جانور بچہ سمیت پالنے والا آدمی  کو حوالہ کردینا اور دوماہ کے بعد بچہ واپس لے کر  اس کی ماں کو  ایک سال تک پالنے والا  کے پاس اس لیے رکھنا کہ مذکورہ رقم (۴۰ یا ۵۰ ہزار) کے مقابلہ میں پالنے والا شخص اس کےدودھ سے فائدہ اٹھاتے رہے اور خوراک وغیرہ بھی اسی کےذمہ ہو تو یہ معاملہ  کئی مفاسد کی وجہ سے شرعا ناجائز ہے، تاہم جائز   صورت یہ ہے کہ جانور کو بچہ سمیت کرایہ پر پالنے کے لیے دے دے، اور پالنے والے کی اجرت طے کرلے، چارہ ، علاج وغیرہ کے اخراجات بھی اپنے ذمہ لے تو پھر ایسی صورت میں دودھ، بچے وغیرہ سب مالک کے ہوں گے اور پالنے والا کو متعینہ اجرت دیگر اخراجات سمیت ادا کیے جائیں گے۔

کنز العمال میں ہے:

"عن علي رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ‌ليس ‌للمسلم ‌أن ‌يذل ‌نفسه، قالوا: يا رسول الله وكيف يذل نفسه؟ قال: يتعرض من البلاء لما لا يطيق. "طس"و عن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ليس ينبغي للمؤمن أن يذل نفسه، قيل: يا رسول الله وكيف يذل نفسه؟ قال: يتعرض من البلاء لما لا يقوم له. ابن النجار."

[الكتاب الثالث في الأخلاق، الأخلاق المذمومة، ج:3، ص:802،ط:مؤسسة الرسالة]

بدائع الصنائع میں ہے:

"فنقول: ‌لا ‌تجوز ‌إجارة ‌الشجر والكرم للثمر؛ لأن الثمر عين والإجارة بيع المنفعة لا بيع العين، ولا تجوز إجارة الشاة للبنها أو سمنها أو صوفها أو ولدها؛ لأن هذه أعيان فلا تستحق بعقد الإجارة، وكذا إجارة الشاة لترضع جديا أو صبيا لما قلنا."

[كتاب الإجارة، ج:4، ص:175، ط:دار الكتب العلمية]

فتح القدیر میں ہے:

"قال (ولا يجوز بيع المراعي ولا إجارتها) المراد الكلأ، أما البيع فلأنه ورد على ما لا يملكه لاشتراك الناس فيه بالحديث وأما الإجارة فلأنها عقدت على استهلاك عين مباح، ولو عقد على استهلاك عين مملوك بأن استأجر بقرة ليشرب لبنها لا يجوز فهذا أولى(وأما الإجارة فلأنها) لو صحت ملك بها الأعيان، وحكمها ليس إلا ملك المنافع. نعم إذا كانت الأعيان آلة لإقامة العمل المستحق كالصبغ واللبن في استئجار الظئر فيملك بعد إقامة العمل تبعا، أما ابتداء فلا (وكذا لو استأجر بقرة ليشرب لبنها لا يجوز) مع أنها عقدت على استهلاك عين مملوكة (فهذا أولى) ؛ لأنها على استهلاك عين غير مملوكة."

[كتاب البيوع، باب البيع الفاسد، ج:6، ص:419، ط:دار الفكر]

الموسوعة الفقهية میں ہے:

"‌‌ويشترط لانعقاد الإجارة على المنفعة شروط هي:أولا: أن تقع الإجارة عليها لا على استهلاك العين. وهذا لا خلاف فيه ...رابعا: ويشترط في المنفعة لصحة الإجارة: القدرة على استيفائها حقيقة وشرعا...وعلى هذا فلا تجوز إجارة ما لا يقدر عليه المستأجر، ويحتاج فيه إلى غيره. وانبنى على هذا القول بعدم جواز استئجار الفحل للإنزاء، والكلب والباز للصيد."

[إجارة، ج:1، ص:260، ط:دار السلاسل]

فتاوی محمودیہ میں ہے:

"سوال: دودھ دینے والی گائے بھینس کو کرایہ پر دینا جائز ہے یا نہیں؟ اس کے دودھ کی رقم یکجا دے دی جاتی ہے ، گھاس وغیرہ کرایہ دار کے ذمہ ہوتاہے۔

جواب:ناجائز ہے۔"

(کتاب الاجارہ، باب الاجارۃ الفاسدۃ،ج:۱۶، ص:۵۹۳،ط:ادارہ فاروق)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144405100466

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں