بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ڈاکٹر سے علاج کے بعد اصل رقم سے زائد کا بل بنوانا


سوال

 اگر کسی کمپنی کا ملازم، کمپنی کی پالیسی کے مطابق کسی ڈاکٹر سے علاج کرواۓ، اور پھر ڈاکٹر کےمطلوبہ خرچ سے زیادہ بل بنواناچاہے، تو کیا ڈاکٹر اس کو مطلوبہ رقم سے زیادہ کا بل بناکر دے سکتا ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں ڈاکٹر  کا اصل   بل سے زیادہ رقم کا  بل مریض کے مطالبہ پر  بناکر  دینا غلط بیانی  دھوکہ دہی کی وجہ سے ناجائزہے ،نیز گناہ کے کام میں معاونت بھی ہے ، اللہ تعالیٰ نے ہمیں  نیکی اور تقوی کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کرنے اور گناہ کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد نہ کرنے کا حکم فرمایا ہے،  اگر ڈاکٹر اصل مقدار سے زیادہ پیسوں کا بل بناکر کمپنی کے  ملازم کو دیتا ہے، تاکہ ملازم کمپنی ملکان سے دھوکہ دہی کرکے زائد رقم وصول کرسکے ،تو  ایسا کرنا شرعا نا جائز  ہونے کے ساتھ ساتھ کمپنی کے مالکان پر ظلم وزیادتی کی بنا پرڈاکٹر     گناہ گاربھی ہوگا۔

قرآن مجید میں ہے:

"وَتَعاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوى ‌وَلا ‌تَعاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوانِ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقابِ."(المائدة:2)

ترجمہ:"اور نیکی اور تقویٰ میں ایک دوسرے کی مدد کرتے رہو اور گناہ و زیادتی میں ایک دوسرے کی اعانت نہ کرو اور اللہ تعالیٰ سے ڈرا کرو ،بلاشبہ اللہ تعالی سخت سزا دینے والا ہے."(بیان القرآن )

تفسیرِ مظہری میں ہے:

‌"وَلا ‌تَعاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوانِ يعنى لا تعاونوا على ارتكاب المنهيات ولا على الظلم."

(سورة المائدة،19/3،ط:رشیدیة)

سنن أبي داود میں ہے:

"عن عبد الله، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إياكم ‌والكذب، فإن الكذب يهدي إلى الفجور، وإن الفجور يهدي إلى النار، وإن الرجل ليكذب ويتحرى الكذب حتى يكتب عند الله كذابا، وعليكم بالصدق، فإن الصدق يهدي إلى البر، وإن البر يهدي إلى الجنة، وإن الرجل ليصدق ويتحرى الصدق حتى يكتب عند الله صديقا."

(‌‌كتاب الأدب، باب في التشديد في الكذب، 297/4، رقم الحديث:4989، ط:المكتبة العصرية بيروت)

"ترجمہ:عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم جھوٹ سے بچو، اس لیے کہ جھوٹ برائی کی طرف لے جاتا ہے، اور برائی جہنم میں لے جاتی ہے، آدمی جھوٹ بولتا ہے اور جھوٹ میں لگا رہتا ہے، یہاں تک کہ وہ اللہ کے نزدیک جھوٹا لکھ دیا جاتا ہے اور سچ بولنے کو لازم کر لو اس لیے کہ سچ بھلائی اور نیکی کی طرف لے جاتا ہے اور نیکی جنت میں لے جاتی ہے، آدمی سچ بولتا ہے اور سچ بولنے ہی میں لگا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ اللہ کے نزدیک سچا لکھ دیا جاتا ہے“۔

مسند أحمد میں ہے:

"عن أبي أمامة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ‌يطبع ‌المؤمن ‌على ‌الخلال ‌كلها ‌إلا ‌الخيانة ‌والكذب."

 (‌‌‌‌تتمة مسند الأنصار، حديث أبي أمامة الباهلي،504/36، رقم الحديث:22170، ط:مؤسسة الرسالة)

ترجمہ:"نبی کریم ﷺ نے فرمایا:مؤمن ہر خصلت پر ڈھل سکتا ہے سوائے خیانت اور جھوٹ کے۔"

مشكاة المصابيح میں ہے:

"قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ألا تظلموا ‌ألا ‌لا ‌يحل مال امرئ إلا بطيب نفس منه."

(‌‌‌‌كتاب البيوع، باب الغصب والعارية، الفصل الثاني،889/2، ط:المكتب الإسلامي بيروت)

ترجمہ: "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:خبردار کسی پر بھی ظلم نہ کرنا، اچھی طرح سنو!کہ کسی دوسرے شخص کا مال اس کی خوشی  کے بغیر  حلال نہیں ہے۔"

مرقاۃ المفاتیح میں ہے:

"(وعنه) أي عن سمرة(عن النبي صلي الله عليه وسلم قاك علي اليد ما أخذت) أي يجب علي اليد رد ما أخذته... قال الطيبي...ما أخذته اليد ضمان علي صاحبها والإسناد إلي اليد علي المبالغة لأنها هي المتصرفه(حتي تؤدي)... أي حتي تؤدِيه إلي مالكه فيجب رده في الغصب وإن لم يطلبه."

(باب الغصب والعارية،الفصل الثاني،119,120/6،ط:مكتبه إمداديه،ملتان)

فتاوی شامی میں ہے:

"‌وما ‌كان ‌سببا لمحظور فهو محظور."

(كتاب الحظر والإباحة،350/6،ط:سعيد)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"لا يجوز لأحد من المسلمين أخذ مال أحد ‌بغير ‌سبب شرعي."

(كتاب الحدود،‌الباب السابع في حد القذف والتعزير،فصل في التعزير،167/2،ط:رشیدية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144506100598

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں