بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

اگر والد کی کمائی مشکوک ہو تو بیٹے کے لیے کیا حکم ہے؟


سوال

 میرے ابو ڈاکٹر ہیں، اور ان کا کلینک ہے، مجھے نہیں پتہ میرے والدِ محترم کی آمدنی کا کتنا حصہ وہ ہے جو دوائیوں والی کمپنی کی طرف سے ہے، کیوں کہ ہمارے گھر میں چند چیزیں دوائیوں والی کمپنی کی طرف سے بطورِ ہدیہ بھی آتی ہیں، میں نے اپنی مسجد کے  مولانا صاحب سے پوچھا تھا ،تو انہوں نے مجھ سے کہا کہ: میں اس حوالے سے تفشیش کروں، مگر میرے اندر اتنی ہمت نہیں، اور مزید یہ کہ میں اس وقت طالب علمی کے زمانے میں ہوں، اور خود کمانے کے لائق نہیں ہوں، ان مولانا صاحب نے مزید مجھ سے یہ بھی کہا کہ: میں اپنے اوپر خرچ ہونے والے پیسے کو گنتا جاؤں، اور جب خود کمانے کے قابل ہو جاؤں، تو اسے بطورِ قرض بغیر ثواب کی نیت سے صدقہ کر دوں۔

تو میرا سوال یہ ہے کہ میں اس آمدنی سے کتنا خرچ کروں؟ جیسے بعض اوقات مجھے کچھ اچھا کھانے کو یا باہر سے کھانے کو دل کرتا ہے، تو کیا میں اس ارادے کی تکمیل کروں یا نہ کروں؟ کیوں کہ  اس سے خرچہ بڑھ جائےگا  میرا، اور اسی طریقے سے دیگر چیزیں جو میرا دل کرتاہے کرنے کو ،مگر ان پر چوں کہ زیادہ پیسہ خرچ ہوتا ہے تو انہیں ترک کیا جائے یا نہ کیا جائے؟

جواب

واضح رہے کہ آپ کے والد کی آمدنی کا جو حصہ ان کی ڈاکٹری فیس کی صورت میں آتا ہے،اس کے استعمال میں تو کوئی حرج نہیں ،وہ استعمال کرنا آپ کے لیے حلال ہے،لیکن جو ہدایا کی صورت میں آتا ہے،اور اس کے بارے میں آپ کو شک ہو تواس میں یہ دیکھا جائے گا کہ اگر تو والد صاحب دین دار اور محتاط آدمی ہیں ،حرام اور مشتبہ چیزوں سے بچنے والے ہیں ،تو آپ کو ان ہدایا کی رقم کے بارے میں شک نہیں کرنا چاہیے ،لیکن اگر ایسا نہیں،تو پھر ہدایا کی صورت میں جو چیزیں یا رقم آتی ہے تو اس میں سے اپنی بے روزگاری کی بنا پر  بقدرضرورت استعمال کریں، ضرورت سے زائد استعمال نہ کریں۔

چناں چہ ارشاد باری تعالی ہے:

"یُجَاهِدُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَ لَا یَخَافُوْنَ لَوْمَةَ لَآئِمٍ."(سورة المائدة،54)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"رجل اشترى من التاجر شيئا هل يلزمه السؤال أنه حلال أم حرام قالوا ينظر إن كان في بلد وزمان كان الغالب فيه هو الحلال في أسواقهم ليس على المشتري أن يسأل أنه حلال أم حرام ويبنى الحكم على الظاهر، وإن كان الغالب هو الحرام أو كان البائع رجلا يبيع الحلال والحرام يحتاط ويسأل أنه حلال أم حرام."

(کتاب البیوع، ج:3، ص:210، ط: دار الفكر)

کتاب الاصل لمحمد ابن الحسن میں ہے :

"ويفرق الشيباني بين حالتين من الترخيص في فعل الحرام في حالة الضرورة والإكراه. فهو يرى أن بعض الأفعال المحرمة تأخذ حكم المباح في حالات الضرورة والإكراه؛ ويجب العمل بهذه الرخصة، ويأثم الشخص إذا لم يعمل بهذه الرخصة معرضاً بذلك حياته للخطر. وذلك مثل ‌أكل لحم ‌الميتة أو الخنزير في حالة الضرورة والإكراه، وبعض الأفعال المحرمة لا تأخذ حكم المباح في حالة الضرورة أو الإكراه، لكن يرخص في فعل الحرام في هذه الأحوال، وذلك مثل التلفظ بكلمة الكفر في حالة الإكراه."

(ألأحكام، الرخصة، ص : 282 ط : دارابن حزم)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144508100348

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں