بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

صحت کے خطرے کی وجہ سے ڈاکٹر کے کہنے پر دو سال تک اولاد میں وقفہ یا حمل ساقط کرنے کا حکم


سوال

اگر ڈاکٹر دو سال تک سختی سے اولاد میں وقفے کا کہے تو حمل ٹھہر جانے پر اسے ضائع کیا جا سکتا ہے؟ میرا حمل نارمل تھا لیکن عین وقت پر جلدی میں آپریشن کرنا پڑ گیا، اب ڈاکٹر نے سختی سے اگلے دو سال تک وقفے کا کہا ہے، چار ماہ سے ویسے ہی زخم ٹھیک نہیں ہو رہے ہیں، اس دوران حمل ہو گیا تو پھر سے آپریشن اور تکلیف دہ زخموں کا بڑھ جانا لازمی ہے، اور اگر دو سال تک انتظار نہ کیا تو ایک دو بچوں کے بعد مزید گنجائش نہ ہوگی، صحت کے پیشِ نظر اور اگر وقفہ کرلیا تو نارمل ڈلیوری ممکن ہو سکتی ہے، جس کے بعد پھر زیادہ بچوں کی پیدائش پر ڈاکٹر کی طرف سے کوئی پابندی نہیں ہوگی، تو ٹانکوں کی صحت تک زیادہ بچوں کی نیت سے اگر وقفہ کر لیا جائے یا حمل ٹھہر جائے تو اسے چار ماہ کے اندر اندر ضائع کردیا جائے تو کیا یہ جائز ہوگا؟ مجھے پریشانی ہے کہ گناہ یا نعمت کی ناشکری کے زمرے میں نہ آئے۔

جواب

شریعتِ مطہرہ کی رو  سے کثرتِ اولاد پسندیدہ ہے، بلا کسی عذر کے کوئی مانعِ حمل طریقہ اختیار نہیں کرنا چاہیے، البتہ اگر کوئی شرعی عذر ہو تو بیوی کی اجازت سے عارضی  مانعِ حمل کا کوئی ذریعہ استعمال کرنا جائز ہے، شرعی عذر سے مراد یہ ہے کہ مثلاً بیوی کی صحت ولادت کی متحمل نہ ہو، یا پہلے سے کوئی دودھ پینے والا بچہ ہو اور حاملہ ہونے کی وجہ سے دودھ خراب ہونے اور دودھ پینے والے بچے کی صحت پر اثر پڑنے کا اندیشہ ہو، یا اولاد کی اچھی تربیت کے لیے مناسب وقفہ کرنا مقصود ہو۔   لیکن  اگر یہ نیت ہو  کہ دوسرا بچہ پیدا ہوگا تو اس کے خرچ اور کھانے کا انتظام کہاں سے ہوگا ؟ تو اس نیت سے کوئی بھی مانعِ حمل طریقہ اختیار کرنا جائز نہیں ہے۔

اگر حمل ٹھہر جائے اور ماں کی جان کو  حمل سے  خطرہ  ہو یا عورت کے کم زور یا بیمار  ہونے کی وجہ سے اس کی صحت حمل کی متحمل نہ ہو اور حمل کی وجہ سے کسی شدید مضرت کا اندیشہ ہو، یا  حمل سے عورت کا دودھ بند ہوجائے جس  سے پہلے بچہ کو نقصان ہو تو اس طرح کے اعذار کی بنا پر  حمل  میں روح پڑجانے سے پہلے   پہلے (جس کی مدت تقریباً چار ماہ ہے)    حمل  کو ساقط کرنے کی گنجائش ہے۔ مذکورہ اعذار میں سے کسی عذر کے پیشِ نظر اگر کوئی مسلمان دین دار ڈاکٹر (یعنی شریعت کے مطابق عمل کرنے والا) عورت کو اسقاط کا مشورہ دیتاہے تو گنجائش ہوگی۔ حمل چار ماہ کا ہو تو اس کے بعد کسی صورت بھی حمل ساقط کرنے کی گنجائش نہیں ہے۔

الفتاوى الهندية (1/ 335)

" العزل ليس بمكروه برضا امرأته الحرة."

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 175)

"(ويعزل عن الحرة بإذنها."

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 176)

" أخذ في النهر من هذا ومما قدمه الشارح عن الخانية والكمال أنه يجوز لها سد فم رحمها كما تفعله النساء."

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 429)

"و يكره أن تسقى لإسقاط حملها ... وجاز لعذر حيث لايتصور."

(قوله: و يكره إلخ) أي مطلقًا قبل التصور وبعده على ما اختاره في الخانية كما قدمناه قبيل الاستبراء وقال إلا أنها لا تأثم إثم القتل (قوله: وجاز لعذر) كالمرضعة إذا ظهر بها الحبل و انقطع لبنها وليس لأبي الصبي ما يستأجر به الظئر ويخاف هلاك الولد قالوا: يباح لها أن تعالج في استنزال الدم ما دام الحمل مضغة أو علقة ولم يخلق له عضو وقدروا تلك المدة بمائة وعشرين يوما، وجاز لأنه ليس بآدمي وفيه صيانة الآدمي خانية (قوله: حيث لايتصور) قيد لقوله: وجاز لعذر والتصور كما في القنية أن يظهر له شعر أو أصبع أو رجل أو نحو ذلك.‘‘

(کتاب الحظر والإباحة، باب الاستبراء و غیرہ)

الفتاوى الهندية (5/ 356):

’’رجل عزل عن امرأته بغير إذنها لما يخاف من الولد السوء في هذا الزمان فظاهر جواب الكتاب أن لايسعه وذكر هنا يسعه لسوء هذا الزمان كذا في الكبرى. وله منع امرأته من العزل كذا في الوجيز للكردري. وإن أسقطت بعد ما استبان خلقه وجبت الغرة كذا في فتاوى قاضي خان. العلاج لإسقاط الولد إذا استبان خلقه كالشعر والظفر ونحوهما لا يجوز وإن كان غير مستبين الخلق يجوز ... وفي اليتيمة سألت علي بن أحمد عن إسقاط الولد قبل أن يصور فقال أما في الحرة فلا يجوز قولا واحدا وأما في الأمة فقد اختلفوا فيه والصحيح هو المنع كذا في التتارخانية. و لايجوز للمرضعة دفع لبنها للتداوي إن أضر بالصبي كذا في القنية. امرأة مرضعة ظهر بها حبل وانقطع لبنها وتخاف على ولدها الهلاك وليس لأبي هذا الولد سعة حتى يستأجر الظئر يباح لها أن تعالج في استنزال الدم ما دام نطفة أو مضغة أو علقة لم يخلق له عضو وخلقه لا يستبين إلا بعد مائة وعشرين يوما أربعون نطفة وأربعون علقة وأربعون مضغة كذا في خزانة المفتين. وهكذا في فتاوى قاضي خان. والله أعلم‘‘.

(الهندیة، کتاب الکراهیة، الباب الثامن عشر: في التداوي والمعالجات وفیه العزل وإسقاط الولد)

الموسوعة الفقهیة الکویتیة (۳۰/ ۲۸۵):

"وذهب الحنفیة إلی إباحة إسقاط العلقة حیث أنهم یقولون بإباحة إسقاط الحمل ما لم یتخلق منه شيء ولم یتم التخلق إلا بعد مائة وعشرین یوماً، قال ابن عابدین: وإطلاقهم یفید عدم توقف جواز إسقاطها قبل المدة المذکورة علی إذن الزوج، وکان الفقیه علي بن موسی الحنفي یقول: إنه یکره فإن الماء بعد ما وقع في الرحم مآله الحیاة، فیکون له حکم الحیاة کما في بیضة صید الحرم، قال ابن وهبان: فإباحة الإسقاط محمولة علی حالة العذر أو أنها لاتأثم إثم القتل".

 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144209200009

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں