بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 ذو الحجة 1446ھ 12 جون 2025 ء

دارالافتاء

 

ڈاکٹر کا دوا لکھنے پر میڈیسن کمپنی سے کمیشن لینے کا حکم


سوال

میڈیکل کمپنی کسی ڈاکٹر کو ادویات لکھنے کے لیے جو پیسے دیتی ہے کیا یہ جائز ہے؟ یعنی ڈاکٹر کے لیے ادویات لکھنے پر کمیشن لینا جائز ہے؟

جواب

واضح رہے کہ طب اور ڈاکٹری ایک ایسا شعبہ ہے  جس میں ڈاکٹر کا مریض کی مصلحت اور اس کی خیر خواہی کو مدِ نظر رکھنا شرعی اور اخلاقی  ذمہ داری ہے، اس بنا پر ڈاکٹر اور مریض کے معاملہ کی وہ صورت  جو مریض کی مصلحت اور فائدہ کے خلاف ہو یا جس میں ڈاکٹر اپنے پیشہ یا مریض کے ساتھ کسی قسم کی خیانت کا مرتکب ہوتا ہو، شرعاً درست نہیں ہے، لہذا اگر ڈاکٹر اپنے مالی فائدے یا کسی اور قسم کی ذاتی منفعت  ہی کو ملحوظ رکھتا ہے اور مریض کی مصلحت اور فائدے سے صرف نظر کرتے ہوئے  اس کے لیے علاج/دوا تجویز کرتا ہے تو یہ دیانت کے خلاف ہے اور اس میں ڈاکٹر گناہ گار ہوگا،  اور اس کے لیے اس کے عوض کمپنی سے کمیشن وغیرہ لینا بھی جائز نہیں ہوگا۔

البتہ  اگر ڈاکٹر مریض کی مصلحت اور خیر خواہی کو مدنظر رکھتے ہوئے  پوری دیانت داری کے ساتھ مریض کے لیے وہی دوا تجویز کرے جو اس کے لیے مفید اور موزوں ہو اور اس میں درج ذیل شرائط کی رعایت بھی کی جائے تو ایسی صورت میں ڈاکٹر کے لیے کمپنی سے کمیشن/ تحائف اور ہدایا لینے کی گنجائش ہے:

              1۔۔محض کمیشن وصول کرنے کی خاطر  ڈاکٹر غیر معیاری  وغیر ضروری  اور مہنگی ادویات تجویز نہ کرے۔

              2۔۔ کسی دوسری کمپنی کی دوا مریض کے لیے  زیادہ مفید سمجھتے ہوئے  خاص اس کمپنی  ہی کی دوا تجویز نہ کرے ۔

               3۔۔ دوا ساز کمپنیاں ڈاکٹر کو دیے جانے والے کمیشن / تحفہ /مراعات  کا خرچہ  ادویات  مہنگی  کر کے مریض  سے وصول  نہ کریں ۔

                 4۔۔ دوا ساز کمپنیاں کمیشن، تحفہ ومراعات کی ادائیگی  کا خرچہ  وصول کرنے کے لیے  ادویات  کے معیار  میں کمی نہ کریں ۔

                 5۔۔ نیز اس کمپنی کی دوا مریض کے لیے مفید اور دوسری اس  طرح کی دواؤں سے مہنگی نہ ہوں۔

اگر ان مذکورہ بالا شرائط کی رعایت نہ کی جائے تو ڈاکٹر کے لیے  کمپنی سے  اس کے بدلے میں کوئی چیز لینا  یا کمپنی والوں کو کمیشن یا تحفہ کے نام سے کچھ دینا دونوں ناجائز ہوگا۔

شرح المشکاۃ للطیبی میں ہے:

"الحديث الثامن عن أبي هريرة رضي الله عنه: قوله: (المستشار مؤتمن)معناه أن المستشار أمين فيما يسأل من الأمور، فلا ينبغي أن يخون المستشير بكتمان مصلحته."

(كتاب الآداب، باب الحذر والتأني في الأمور، ج:10، ص:3225، ط:مكتبة نزار)

شرح النووی علی مسلم میں ہے:

"عن تميم الداري رضي الله عنه أن النبي صلى الله عليه وسلم قال الدين النصيحة قلنا لمن قال لله ولكتابه ولرسوله ولأئمة المسلمين وعامتهم) هذا حديث عظيم الشأن وعليه مدار الإسلام.....وأما نصيحة عامة المسلمين وهم من عدا ولاة الأمر فإرشادهم لمصالحهم في آخرتهم ودنياهم وكف الأذى عنهم فيعلمهم ما يجهلونه من دينهم ويعينهم عليه بالقول والفعل وستر عوراتهم وسد خلاتهم ودفع المضار عنهم وجلب المنافع لهم وأمرهم بالمعروف ونهيهم عن المنكر برفق وإخلاص والشفقة عليهم وتوقير كبيرهم ورحمة صغيرهم وتخولهم بالموعظة الحسنة وترك غشهم وحسدهم وأن يحب لهم ما يجب لنفسه من الخير ويكره لهم ما يكره لنفسه من المكروه والذب عن أموالهم وأعراضهم وغير ذلك من أحوالهم بالقول والفعل وحثهم على التخلق بجميع ما ذكرناه من أنواع النصيحة وتنشيط هممهم إلى الطاعات....قال والنصيحة لازمة على قدر الطاقة إذا علم الناصح أنه يقبل نصحه ويطاع أمره وأمن على نفسه المكروه فإن خشي على نفسه أذى فهو في سعة."

(كتاب الإيمان، باب بيان أن الدين النصيحة،ج:2،ص:37/39،ط: دار إحياء التراث العربي)

البحر الرائق میں ہے:

"وفي المصباح الرشوة بكسر الراء ما يعطيه الشخص للحاكم وغيره ‌ليحكم ‌له أو يحمله على ما يريد."

(كتاب القضاء، أخذ القضاء بالرشوة،ج:6،ص:285،ط: دار الكتاب الإسلامي)

فتاوی شامی میں ہے:

"[مطلب ضل له شيء فقال من دلني عليه فله كذا]
(قوله: إن دلني إلخ) عبارة الأشباه إن دللتني. وفي البزازية والولوالجية: رجل ضل له شيء فقال: من دلني على كذا فهو على وجهين: إن قال ذلك على سبيل العموم بأن قال: من دلني فالإجارة باطلة؛ لأن الدلالة والإشارة ليست بعمل يستحق به الأجر، وإن قال على سبيل الخصوص بأن قال لرجل بعينه: إن دللتني على كذا فلك كذا إن مشى له فدله فله أجر المثل للمشي لأجله؛ لأن ذلك عمل يستحق بعقد الإجارة إلا أنه غير مقدر بقدر فيجب أجر المثل، وإن دله بغير مشي فهو والأول سواء."

(کتاب الاجارۃ،‌‌باب فسخ الإجارة،ج:6،ص:95،ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144611102308

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں