بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

ڈاکٹر کا دواساز کمپنیوں سے کمیشن لینا


سوال

میں ایک ڈاکٹر ہوں ،میں مریض کو دوائی لکھ کر دیتا ہوں اور اس دوائی لکھ کر دینے کے میں اپنے پیسے یعنی فیس لیتا ہوں ۔ اگر میں کسی ایک مخصوص کمپنی کی دوائی لکھ کر دوں تو کمپنی والے اس کے عوض مجھے کمیشن دیں گے۔ یعنی اگر دوائی کی کل قیمت 500 روپے ہےاور اس میں کمپنی کا منافع 100 روپے ہوتا ہےتو کمپنی والے اس 100 روپے میں سے 40 یا 50 روپے مجھے دیں گے ۔ اور اس میں مریض کا کسی قسم کا نقصان نہیں ھوگا۔ یعنی دوائی کی قیمت بھی مارکیٹ کی باقی کمپنیوں کے مطابق ہوگی،دوائی معیار کے لحاظ سے بھی اچھی ہوگی،مریض کی بیماری کے مطابق دوائی ضرورت بھی ہوگی یعنی غیر ضروری دوائی نہیں ہوگی ،باقی بھی کسی قسم کا مریض کا نقصان نہیں ہوگا۔ تو کیا اس صورت میں کمپنی سے میں پیسے لوں یا کسی قسم کی کوئی اور چیز لوں تو وہ میرے لیے جائز ہوگی یا نا جائز یا حرام یا مکروہ ؟

جواب

واضح رہے کہ طب اور ڈاکٹری ایک ایسا شعبہ ہے  جس میں ڈاکٹر کا مریض کی مصلحت اور اس کی خیر خواہی کو مدِ نظر رکھنا شرعی اور اخلاقی  ذمہ داری ہے، اس بنا پر ڈاکٹر اور مریض کے معاملہ کی وہ صورت  جو مریض کی مصلحت اور فائدہ کے خلاف ہو یا جس میں ڈاکٹر اپنے پیشہ یا مریض کے ساتھ کسی قسم کی خیانت کا مرتکب ہوتا ہو، شرعاً درست نہیں ہے، لہذا اگر ڈاکٹر اپنے مالی فائدے یا کسی اور قسم کی ذاتی منفعت  ہی کو ملحوظ رکھتا ہے اور مریض کی مصلحت اور فائدے سے صرف نظر کرتے ہوئے  اس کے لیے علاج/دوا تجویز کرتا ہے تو یہ جائز نہیں ہے  اور اس میں ڈاکٹر گناہ گار ہوگا،  اور اس کے لیے اس کے عوض کمپنی سے کمیشن وغیرہ لینا بھی جائز نہیں ہوگا۔

البتہ  اگر ڈاکٹر مریض کی مصلحت اور خیر خواہی کو مدنظر رکھتے ہوئے  پوری دیانت داری کے ساتھ مریض کے لیے وہی دوا تجویز کرے جو اس کے لیے مفید اور موزوں ہو اور  قیمت بھی مناسب ہو اور اس میں درج ذیل شرائط کی رعایت بھی کی جائے تو ایسی صورت میں ڈاکٹر کے لیے کمپنی سے کمیشن/ تحائف اور ہدایا لینے کی گنجائش ہے:

1۔محض کمیشن وصول کرنے کی خاطر  ڈاکٹر غیر معیاری  وغیر ضروری  اور مہنگی ادویات تجویز نہ کرے۔

  2۔ کسی دوسری کمپنی کی دوا مریض کے لیے  زیادہ مفید سمجھتے ہوئے  خاص اس کمپنی  ہی کی دوا تجویز نہ کرے ۔

3۔ دوا ساز کمپنیاں ڈاکٹر کو دیے جانے والے کمیشن / تحفہ /مراعات  کا خرچہ  ادویات  مہنگی  کر کے مریض  سے وصول  نہ کریں ۔

4۔ دوا ساز کمپنیاں کمیشن، تحفہ ومراعات کی ادائیگی  کا خرچہ  وصول کرنے کے لیے  ادویات  کے معیار  میں کمی نہ کریں ۔

  5۔ نیز اس کمپنی کی دوا مریض کے لیے مفید اور دوسری اس  طرح کی دواؤں سے مہنگی نہ ہوں۔

لہذا سائل یا دیگر ڈاکٹرحضرات اگر ان مذکورہ بالا شرائط کی رعایت کریں تو ان کے لیے دواساز کمپنیوں سے مقررہ کمیشن یا دیگر اشیاء کا وصول کرنا جائز ہوگا اور اگر ان شرائط کا لحاظ نہ رکھیں تو ڈاکٹر حضرات کے لیے  کمپنی سے   دوا تجویز کرنے کے بدلے میں کمیشن یا تحفہ کے نام سے کچھ لینا دینا دونوں ناجائز ہوگا۔

فتاوی شامی میں ہے:

"[مطلب ضل له شيء فقال من دلني عليه فله كذا]
(قوله: إن دلني إلخ) عبارة الأشباه إن دللتني. وفي البزازية والولوالجية: رجل ضل له شيء فقال: من دلني على كذا فهو على وجهين: إن قال ذلك على سبيل العموم بأن قال: من دلني فالإجارة باطلة؛ لأن الدلالة والإشارة ليست بعمل يستحق به الأجر، وإن قال على سبيل الخصوص بأن قال لرجل بعينه: إن دللتني على كذا فلك كذا إن مشى له فدله فله أجر المثل للمشي لأجله؛ لأن ذلك عمل يستحق بعقد الإجارة إلا أنه غير مقدر بقدر فيجب أجر المثل، وإن دله بغير مشي فهو والأول سواء."

(ج:6،ص:95،ط:سعید)

مجلۃ الاحکام العدلیہ میں ہے :

"(المادة 465) يلزم بيان مقدار بدل الإجارة ووصفه إن كان من العروض أو المكيلات أو الموزونات أو العدديات المتقاربة."

(الکتاب الثانی فی الاجارات،الفصل الاول فی بدل الاجارۃ،ص:88،ط:نور محمد کارخانہ )

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144402100868

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں