ہم شیر خوار بچوں کے ایک دوا ساز کمپنی میں ملازم ہیں ہمارا کام یہ ہے کہ ہم ڈاکٹروں سے ملاقات کرتے ہیں اور ان کو اپنی پروڈکٹ لکھوانے کے لیے رضامند کرتے ہیں،ہماری پروڈکٹ معیاری بھی ہے اور اس کی قیمت بھی مناسب ہے،ہماری پروڈکٹ لکھنے پر ہم ڈاکٹروں کو کمپنی کے پین،پیڈز اور ٹشو فراہم کرتے ہیں،اور اس کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر کے کلینک،ہسپتال یا میڈیکل سینٹر کا کوئی بھی چھوٹا یا بڑا کام کروا دیتے ہیں یا کیش رقم دے دیتے ہیں،اس میں بعض اوقات ہمارا ڈاکٹر کے ساتھ ماہانہ کی بنیاد پر فیصد کے اعتبار سے طے ہوتا ہے کہ اگر آپ ہمارا اتنا پروڈکٹ سیل کروائیں گے تو ہم آپ کو اتنی رقم دیں گے،بعض اوقات تین ماہ اور کبھی سالانہ کے بنیاد پر بھی ڈاکٹر سے بات ہوتی ہے مگر اس میں سیل طے نہیں کی جاتی کہ آپ ہمیں کتنا سیل دیں گے،اور ہمارے کام کا طریقہ کار یہ ہے کہ ہم تمام ڈکٹروں کو بات کرتے وقت یہ ہدایت ضرور کر تے ہیں کہ ضرورت کے وقت ہی ہمارا دودھ لکھا جائے بلا ضرورت کسی بچے سے ماں کا دودھ بند کروا کے ہماری کمپنی کادودھ نہ لکھا جائے،اور کسی بھی ڈکٹر پرہم کسی بھی قسم کا کوئی پریشر یا دباؤ نہیں ڈالتے،کہ آپ نے ہمیں ماہانہ اتنی سیل ہر حال میں دینی ہے،سیل میں ڈاکٹر کی طرف سے کمی بیشی ہوتی رہتی ہے ،2012 سے لے کر 2018 تک مارکیٹ میں ڈاکٹر حضرات ایسے تھے کہ کچھ ڈاکٹر کچھ لے دے کر لکھ دیا کرتے تھے،ہماری پروڈکٹ بھی لکھتے تھے اور دوسروں کی بھی،پھر مارکیٹ کا ٹرینڈ تبدیل ہوا، 2019 سے لے کر 2022 تک کام ایسا چلا کہ کمپنی ڈاکٹروں کو کوئی کیش یا سامان دیتی تھی تو ڈاکٹر صرف ہماری ہی کمپنی کا دودھ لکھتے تھے لیکن اس وقت بھی ہم ڈاکٹروں پر کوئی پریشر نہیں ڈالتے تھے ،2022 کے بعد سے اب تک مارکیٹ اور ڈاکٹر حضرات نے یہ اصول بنا لیا ہے کہ پچاس سے زائد دودھ بنانے والی کمپنیاں ہیں اور تقریباً ہر ڈاکٹر چھ ،آٹھ کمپنیوں کو لے کر چل رہا ہے جس میں ایک کمپنی ہماری بھی ہے اور ہمارا اصول آج بھی وہی ہے کہ جب ہم ڈاکٹر کو کچھ دیتے ہیں تو دیتے وقت ہم ڈاکٹر سے یہ ضرور کہتے ہیں کہ بلا ضرورت ہمارا دودھ نہ لکھےجہاں ضرورت ہو وہاں لکھےکسی بچےکے ماں کا دودھ بند کر اکے ہمارا دودھ نہ لکھے،بچے کا پیٹ خراب ہونے کی صورت میں پیٹ ٹھیک کرنے والا ہمارا فارمولا دودھ لکھ دیا کرے،کیوں کہ ہماری کمپنی کا دودھ معیاری بھی ہے اور سستا بھی،اور آج مارکیٹ میں تقریباً ڈاکٹر حضرات بغیر کچھ لیے دیے کمپنی کا دودھ نہیں لکھتے، چاہے دودھ کتنا ہی اچھا اور معیاری ہو اور کتنا ہی سستا ہو۔
1۔کیا ماہانہ کے بنیاد پر ڈاکٹر سے کمیشن طے کر کے سیل لینا درست ہے؟
2۔تین ماہ ،چھ ماہ اور سال کی عوض ہم ڈاکٹر کو کچھ دیتے ہیں کہ اس عرصہ کے دوران ہماری پروڈکٹ لکھے،جہاں ضرورت ہو وہاں لکھےمگر سیل طے نہیں ہوتی کہ آپ نے اتنی سیل ہر حال میں دینی ہے،اب یہ ڈاکٹر پر ہے کبھی وہ سیل زیادہ دیتےہیں اور کبھی کم دیتے ہیں،اب ہمارے لیے بطورِ ملازم یہ لین دین جائز ہے یا نہیں ؟یا بصورتِ دیگر اس کا کوئی صحیح راستہ ہے ؟اور بطورِ مالکان بھی یہ طریقہ جائز ہے یا نہیں؟اس صورت کا کوئی صحیح متبادل ہو تو ہمیں اس بارے میں بھی راہ نمائی فرما دیں۔
3۔اسی طرح کمپنی اپنے بجٹ میں ڈاکٹرز کے لیے بھی کچھ فیصد مختص کرتی ہےاور یہ فیصد پروڈکٹ کی قیمت میں شامل ہوتی ہے،آیا کمپنی کا اس طرح کرنا درست ہے؟
1،3۔واضح رہے کہ ڈاکٹر کے لیے مریض کے ساتھ مکمل دیانت اور امانت کا معاملہ کرنا اس کے فرائض منصبی میں شامل ہے اس بنیاد پر ڈاکٹر کے لیے ضروری ہے کہ وہ مریض کے لیے وہی دوا تجویز کرے جو اس کے لیے بہتر اور مفید ہو،تاہم ڈاکٹر کا اپنے کسی فائدے اور منفعت کے حاصل کرنے کے لیے مریض کے لیے ایسی دوا تجویز کرنا جو مریض کی مصلحت اور فائدہ کے خلاف ہو یا جس میں ڈاکٹر اپنے پیشے یا مریض کے ساتھ کسی قسم کی خیانت کا مرتکب ہوتا ہو،ایسا کرنا شرعاً درست نہیں ہے، لہذا اگر ڈاکٹر اپنے مالی فائدے یا کسی اور قسم کی ذاتی منفعت ہی کو ملحوظ رکھتا ہے اور مریض کی مصلحت اور فائدے سے صرفِ نظر کرتے ہوئے اس کے لیے علاج/ دوا تجویز کرتا ہے تو یہ دیانت کے خلاف ہے اور اس میں ڈاکٹر گناہ گار ہوگا، اور اس کے لیے اس کے عوض کمپنی سے کمیشن وغیرہ لینا بھی جائز نہیں ہوگا۔
البتہ اگر ڈاکٹر مریض کی مصلحت اور خیر خواہی کو مدنظر رکھتے ہوئے پوری دیانت داری کے ساتھ مریض کے لیے وہی دوا تجویز کرے جو اس کے لیے مفید اور موزوں ہو اور اس میں درج ذیل شرائط کی رعایت بھی کی جائے تو ایسی صورت میں ڈاکٹر کے لیے کمیشن لینے کی گنجائش ہوگی:
1۔محض کمیشن وصول کرنے کی خاطر ڈاکٹر غیر معیاری وغیر ضروری اور مہنگی ادویات تجویز نہ کرے۔
2۔ کسی دوسری کمپنی کی دوا مریض کے لیے زیادہ مفید سمجھنے کے باوجود خاص اِس کمپنی ہی کی دوا تجویز نہ کرے ۔
3۔دوا ساز کمپنیاں ڈاکٹر کو دیے جانے والے کمیشن تحفہ مراعات کا خرچہ ادویات مہنگی کر کے مریض سے وصول نہ کریں ۔
4۔کمیشن تحفہ و مراعات کی ادائیگی کا خرچہ وصول کرنے کے لیے کمپنی ادویات کے معیار میں کمی نہ کرے ۔
5۔ اس کمپنی کی دوا مریض کے لیے مفید اور دوسری اس طرح کی دواؤں سے مہنگی نہ ہو۔
چنانچہ سائل کے ذکر کردہ صورت میں مذکورہ بالا شرائط میں سے تیسری شرط نہیں پائی جاتی لہذا ڈاکٹر کے لیے کمیشن اور مراعات وغیرہ لینا اور کمپنی والوں کے لیےکمیشن اور مراعات وغیرہ دینا دونوں ناجائز ہے، اور اس کا گناہ کمپنی کے ذمہ داران، ڈاکٹراور اس کے لیے کوشش کرنے والے افراد پر ہو گا۔
2۔ سائل کے لیے مذکورہ کمپنی میں نوکری کرنا درست نہیں ہے اس لیے کہ جب کمپنی مذکورہ بالا شرائط کی رعایت نہیں کرتی، تو اس کی طرف سے ڈاکٹر کو کمیشن کی آفر کرکے ڈاکٹر کو نسخہ لکھنے پر آمادہ کرنا درست نہیں ہے ،البتہ اگر کمپنی مذکورہ بالا شرائط کی مکمل پابندی کرنے کا اہتمام شروع کرے،تو اس صورت میں پھر سائل کے لیے اس کمپنی میں مذکورہ کام کرنے کی اجازت ہوگی۔
اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
"وَتَعاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوى وَلا تَعاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوانِ".(سورۃ المائدۃ، آیت:2)
ترجمہ:
"اور نیکی اور تقویٰ میں ایک دوسرے کی اعانت کرتے رہو اور گناہ اور زیادتی میں ایک دوسرے کی اعانت مت کرو"۔
(بیان القرآن، ج:3، ص:2، ط:میر محمد کتب خانہ کراچی)
سنن الترمذی میں ہے:
"عن أبي صرمة، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «من ضار ضار الله به، ومن شاق شق الله عليه»".
(أبواب البر والصلة، باب ما جاء في الخيانة والغش، ج:3، ص:495، ط:دار الغرب الإسلامي - بيروت)
ترجمہ:
"حضرت ابو صرمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہےکہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا"جو شخص کسی( مسلمان کو بلا وجہ شرعی)کوئی ضرر و نقصان پہنچائے گا تو اللہ تعالی اس کو ضرر و نقصان پہنچائے گایعنی اس کو بُرے عمل کی سزا دے گااور جو شخص(کسی مسلمان کو)مشقت و تکلیف میں ڈالے گا تو اللہ تعالی اُس کو مشقت و تکلیف میں مبتلا کرے گا"۔
(مظاہرِ حق جدید، ج:4، ص:584، ط:داراالاشاعت کراچی)
مرقاۃ المفاتیح میں ہے:
"(وعن أبي صرمة) : بكسر الصاد وسكون الراء المهملتين قال المؤلف: هو مالك بن قيس المازني، شهد بدرا وما بعدها من المشاهد (أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: من ضار) أي مؤمنا كما في الرواية الآتية بأن أوصل إليه الضرر ابتداء (ضار الله به) أي: جازاه بعمله وعامله معاملته ففيه نوع من المشاكلة والمقابلة.۔۔۔والأظهر أن الضرر يشمل البدني والمالي والدنيوي والأخروي، وأما المشقة فهي المخالفة التي تؤدي إلى المنازعة والمحاربة، وأمثال ذلك هذا، وفي جامع الأصول: المضارة المضرة والمشقة النزاع،فمن أضر غيره تعديا أو شاقه ظلما بغير حق فإن الله يجازيه على فعله بمثلهاهـ."
(كتاب الآداب، باب ما ينهى عنه من التهاجر والتقاطع واتباع العورات، ج:8، ص:3156، ط:دار الفكر، بيروت)
فتاوی شامی میں ہے:
"(قوله إن دلني إلخ) عبارة الأشباه إن دللتني. وفي البزازية والولوالجية: رجل ضل له شيء فقال: من دلني على كذا فهو على وجهين: إن قال ذلك على سبيل العموم بأن قال: من دلني فالإجارة باطلة؛ لأن الدلالة والإشارة ليست بعمل يستحق به الأجر، وإن قال على سبيل الخصوص بأن قال لرجل بعينه: إن دللتني على كذا فلك كذا إن مشى له فدله فله أجر المثل للمشي لأجله؛ لأن ذلك عمل يستحق بعقد الإجارة إلا أنه غير مقدر بقدر فيجب أجر المثل، وإن دله بغير مشي فهو والأول سواء. قال في السير الكبير: قال أمير السرية: من دلنا على موضع كذا فله كذا يصح ويتعين الأجر بالدلالة فيجب الأجر اهـ"
(كتاب الإجارة، باب فسخ الإجارة، مطلب ضل له شيء فقال من دلني عليه فله كذا، ج:6، ص:95، ط:ایچ ایم سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144603101279
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن