بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

دو یا تین سال کی زکوۃ کا حکم


سوال

1:كيا دو سال كی زكوة ایک ساتھ ادا کی جاسکتی ہے؟

2:میرا ایک گیمنگ زون ہے، جس میں تقریبا 35 کمپیوٹر ہیں ،اب اس کی زکوۃ کس طریقہ سے ادا کروں؟

جواب

1: صورتِ مسئولہ میں سائل اگر آئندہ سالوں کی زکوۃ ساتھ ادا کرنا چاہتا ہے، تو اس کے لیے چند شرطیں ہیں (۱)زکوٰۃ کی ادائیگی کے وقت مالک نصاب ہو۔ (۲)نصاب سال کے دوران بالکلیہ ختم نہ ہوجائے۔ (۳)جس نصاب کی زکوٰۃ پیشگی ادا کی ہے وہ نصاب سال کے آخر میں پورا ہو،یہ شرائط پائی جائیں تو پیشگی سالوں کی زکوۃ ادا کرسکتا ہے۔

2:واضح رہے کہ گیمنگ زون کا کاروبار شرعا  درست نہیں ،کیوں کہ اکثر گیمز جاندار کی تصاویر،موسیقی وغیرہ پر مشتمل ہوتے ہیں،نیز اس میں جوا بھی ہوتا ہے اگر یہ  قباحت نہ بھی ہو، تب بھی  ایسے گیمنگ زون چلانے والے اس میں یوں منہمک ہوجاتے ہیں کہ فرائض میں کوتاہی وغفلت ہو جاتی ہے اور فرائض کی ادائیگی کا خیال رکھتے ہوئے بھی ایسے زون کو چلانا ایک لہو اور عبث کام ہے، اس لیے بہرصورت اس سے اجتناب کرنا لازم اور ضروری ہے،تاہم ان کمپیوٹر پر زکوۃ واجب نہیں۔

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"ویجوز تعجیل الزکاۃ بعد ملك النصاب ولا یجوز قبله  و إنما یجوز التعجیل بثلاثة شروط أحدھا أن یکون الحول منعقدا علیه وقت التعجیل والثاني أن یکون النصاب الذي أدّی عنه کاملاً في آخر الحول و الثالث أن لا یفوت أصله فیما بین ذلك."

(كتاب الزكاة، الباب الأول، ص:176، ج:1، ط: رشيديه)

فتاوی شامی میں ہے:

"(ولو عجل ذو نصاب) زكاته (لسنين أو لنصب صح) لوجود السبب".

(كتاب الزكاة، ص: 293، ج: 2، ط:سعيد)

وفیہ ایضا:

"وذكر شيخ الإسلام صوت اللهو و الغناء ينبت النفاق في القلب كما ينبت الماء النبات. قلت: و في البزازية: إستماع صوت الملاهي كضرب قصب و نحوه حرام ؛لقوله عليه الصلاة و السلام: استماع الملاهي معصية، و الجلوس عليها فسق، و التلذذ بها كفر؛ أي بالنعمة".

(كتاب الحظر والإباحة، ص: 348، ج:6، ط: سعيد)

کتاب الأصل میں ہے:

"وقال أبو حنيفة: لاتجوز الإجارة على شيء من اللهو والمزامير أو الطبل. و لاتجوز الإجارة على الحداء و لا على قراءة شعر ولا غيره. ولا تجوز الإجارات في شيء من الباطل. وإن أعطى المستأجر شيئا من اللهو يلهو به فضاع أو انكسر فلا ضمان عليه."

( كتاب الإجارات، باب الإجارة الفاسدة و ما لا يجوز منها، ٤ / ١٦، ط: دار ابن حزم، بيروت - لبنان)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144309100409

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں