بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

دو یا ڈھائی مہینہ حمل ضائع کرنا


سوال

 دو یا ڈھائی مہینے کا حمل ہے اور ہم دونوں میاں اور بیوی کی باہمی رضامندی سے کیا ہم حمل ساقط کر سکتے ہیں یا نہیں برائے مہربانی جواب عنایت فرمائیں۔

جواب

واضح رہے کہ اگرواقعۃ  حمل سے عورت کی جان کو خطرہ  ہو یا کسی مضرت(نقصان) کا اندیشہ ہو ، یا  حمل سے عورت کا دودھ بند ہوجائے، جس  سےپہلے بچے کو نقصان ہو  اور بچے کے والد کی اتنی گنجائش نہ ہو کہ وہ اجرت پر دودھ پلانے والی عورت مقرر کرسکے یا بچہ کےلئے ڈبہ کے دودھ کا انتظام کرسکے    اور کوئی  تجربہ کار مستند مسلمان دیندار  ڈاکٹر اس بات کی تصدیق کرے کہ عورت کا حمل برقرار رہنے کی صورت میں حاملہ کی جان کو شدید خطرہ لاحق ہوسکتا ہے یا شدید ضرر لاحق ہوسکتا ہے ،تو ایسے عذر کی صورت میں حمل میں جان پڑنے سے پہلے پہلے اسے ختم کرنے کی  گنجائش ہے  اور فقہاء کرام نے اس کی مدت چارہ ماہ (ایک سو بیس دن ) بیان فرمائی ہے ،اگر مذکورہ بالا اعذار میں سے کوئی عذر نہ ہو تو حمل میں جان پڑنے سے پہلے بھی حمل کو ختم کرنا شرعا جائز نہیں ہوگالہذا صورت مسئولہ میں اگر ذکرکردہ اعذار میں سے کوئی عذر پا یا جارہا ہے تو حمل ساقط کرنے کی گنجائش ہوگی اس کے علاوہ شرعی عذر کے بغیر چار ماہ سے کم میں بھی  حمل ساقط کرنا جائز نہیں ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"وقالوا يباح إسقاط الولد قبل أربعة أشهر ولو بلا إذن الزوج.

(قوله وقالوا إلخ) قال في النهر: بقي هل يباح الإسقاط بعد الحمل؟ نعم يباح ما لم يتخلق منه شيء ولن يكون ذلك إلا بعد مائة وعشرين يوما، وهذا يقتضي أنهم أرادوا بالتخليق نفخ الروح وإلا فهو غلط لأن التخليق يتحقق بالمشاهدة قبل هذه المدة كذا في الفتح، وإطلاقهم يفيد عدم توقف جواز إسقاطها قبل المدة المذكورة على إذن الزوج. وفي كراهة الخانية: ولا أقول بالحل إذ المحرم لو كسر بيض الصيد ضمنه لأنه أصل الصيد فلما كان يؤاخذ بالجزاء فلا أقل من أن يلحقها إثم هنا إذا سقط بغير عذرها اهـ قال ابن وهبان: ومن الأعذار أن ينقطع لبنها بعد ظهور الحمل وليس لأبي الصبي ما يستأجر به الظئر ويخاف هلاكه. ونقل عن الذخيرة لو أرادت الإلقاء قبل مضي زمن ينفخ فيه الروح هل يباح لها ذلك أم لا؟ اختلفوا فيه، وكان الفقيه علي بن موسى يقول: إنه يكره، فإن الماء بعدما وقع في الرحم مآله الحياة فيكون له حكم الحياة كما في بيضة صيد الحرم، ونحوه في الظهيرية قال ابن وهبان: فإباحة الإسقاط محمولة على حالة العذر، أو أنها لا تأثم إثم القتل اهـ. وبما في الذخيرة تبين أنهم ما أرادوا بالتحقيق إلا نفخ الروح، وأن قاضي خان مسبوق بما مر من التفقه، والله تعالى الموفق اهـ كلام النهر ح."

(کتاب النکاح ، باب نکاح الرقیق جلد ۳ ص: ۱۷۶ ط: دارالفکر)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"امرأة مرضعة ظهر بها حبل وانقطع لبنها وتخاف على ولدها الهلاك وليس لأبي هذا الولد سعة حتى يستأجر الظئر يباح لها أن تعالج في استنزال الدم ما دام نطفة أو مضغة أو علقة لم يخلق له عضو وخلقه لا يستبين إلا بعد مائة وعشرين يوما أربعون نطفة وأربعون علقة وأربعون مضغة كذا في خزانة المفتين. وهكذا في فتاوى قاضي خان."

(کتاب الکراهیة ، الباب الثامن عشر فی التداوي و المعالجات جلد ۵ ص: ۳۵۶ ط: دارالفکر)

امداد الفتاوی میں ہے :

" جب تک روح نہ آوے اسقاط حکم قتل نفس میں نہیں ،لیکن بلاضرورت مکروہ ہے اور بعذر جائز اور بعد نفخ روح  حرام و کبیرہ و قتل نفس زکیہ ۔ــ"

(احکام متعلقہ علاج و دو اوغیرہ ج:۴ ص:۲۰۴ ط:مکتبہ دار العلوم کراچی )

فقط و اللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144406101562

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں