بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

دو وطن اصلی میں قصرکا حکم


سوال

 ہمارے دوخاندان ہیں  ۔ دوبھائی  اور والد  کوہستان میں رہتے ہیں جبکہ  ہم تین بھائی  بٹگرام میں   رہتے ہیں  ۔

اب اگر میں  ایک یا دو دن کیلئے  کوہستان جاتاہوں  یا وہ بھائی  یہاں بٹگرام  أتے ہیں  تو  کیا  ہمیں پوری نماز پڑھنی ہوگی  یاقصر کرنی ہوگی ؟  واضح رہے کہ وہاں (کوہستان ) ہماری جائدادیں بھی موجود ہیں ۔

جواب

اگر کوئی شخص اپنے وطنِ اصلی سے بیوی، بچے اور سامان وغیرہ لے کر دوسری جگہ منتقل ہوجائے اور وہیں مستقل  طور پر  اہل وعیال کے ساتھ عمر گزارنے کی نیت کرلے، اور پہلی جگہ پر دوبارہ منتقل ہونے کا ارادہ نہ ہو    تو اس کا پہلا وطنِ اصلی ختم ہوجاتا ہے،  اور دوسری جگہ اس کا وطنِ اصلی بن جاتا ہے، اور  اگر پہلی جگہ  پر بھی موسم کے لحاظ سے آکر رہنے کا ارادہ ہو یا  وطنِ اصلی سے  اہل وعیال کو تو دوسری جگہ  منتقل کرلیا، لیکن پہلے وطن سے رہائش کا تعلق ختم نہ کیا ہوتو دونوں  جگہیں اس کی وطنِ اصلی شمار ہوں گی ، جب بھی  وہاں جائے گا تو مقیم ہوگا اور جب یہاں آئے گا تب بھی مقیم ہوگااگر چہ یہ اقامت پندرہ دن سے کم ہی کیوں نہ ہو ، البتہ  درمیان کے راستے میں مسافر ہوگا۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر آپ  نے کوہستان سے مستقل طور پر تعلق ختم کرکے اس کی وطنیت کو ختم نہیں کیا، بلکہ  یہ بھی نیت ہے کہ کوہستان  کا آبائی علاقہ بھی ہمارا وطن ہے  تو   اس نیت کی بنا پر کوہستان کی وطنیت برقرار رہے گی ،لہذا آپ  وہاں مکمل نماز پڑھیں گے، اگرچہ وہاں پندرہ دن سے کم کے لیے ہی کیوں نہ گئے ہوں، لیکن اگر  آپ  نے یہ نیت کی ہے کہ اب کوہستان   ہمارا وطنِ اصلی نہیں رہا  اور اہل وعیال سمیت بٹگرام  ہجرت کرلی ہےاور اب وہاں دوبارہ جاکر  رہنے کا ارادہ نہیں ہے،تو اب اگر آپ   پندرہ دن سے کم کے لیے کوہستان  جائیں گے تومسافر ہوں گے اور قصرنمازپڑھیں گے۔جبکہ  آپ کے والد اور وہ بھائی جو کوہستان میں ہی رہتے ہیں وہ اگر آپ کے پاس بٹگرام پندرہ دن سے کم کی  اقامت کی نیت  سے  آئیں گے  تو مسافر ہی کہلائیں گے اور قصر ہی کریں گے  بشرطیہ بٹگرام اور کوہستان میں مسافت ِسفر  کے برابر فاصلہ ہو۔

فتاوی شامی  میں ہے:

(الوطن الأصلي) هو موطن ولادته أو تأهله أو توطنه (يبطل بمثله)    إذا لم يبق له بالأول أهل، فلو بقي لم يبطل بل يتم فيهما (لا غير و) يبطل (وطن الإقامة بمثله و) بالوطن (الأصلي و) بإنشاء (السفر) والأصل أن الشيء يبطل بمثله،  وبما فوقه لا بما دونه ولم يذكر وطن السكنى وهو ما نوى فيه أقل من نصف شهر لعدم فائدته، وما صوره الزيلعي رده في البحر (من خرج من عمارة موضع إقامته) من جانب خروجه وإن لم يجاوز من الجانب الآخر. وفي الخانية: إن كان بين الفناء والمصر أقل من غلوة وليس بينهما مزرعة يشترط مجاوزته وإلا فلا (قاصدا) ولو كافرا، ومن طاف الدنيا بلا قصد لم يقصر (مسيرة ثلاثة أيام ولياليها) من أقصر أيام السنة ولا يشترط سفر كل يوم إلى الليل بل إلى الزوال ولا اعتبار بالفراسخ على المذهب (بالسير الوسط مع الاستراحات المعتادة) حتى لو أسرع فوصل في يومين قصر؛ ولو لموضع طريقان أحدهما مدة السفر والآخر أقل قصر في الأول لا الثاني. (صلى الفرض الرباعي ركعتين) وجوبا لقول ابن عباس: «إن الله فرض على لسان نبيكم صلاة المقيم أربعا۔

قوله يبطل بمثله) سواء كان بينهما مسيرة سفر أو لا، ولا خلاف في ذلك كما في المحيط قهستاني، وقيد بقوله بمثله لأنه لو انتقل منه قاصدا غيره ثم بدا له أن يتوطن في مكان آخر فمر بالأول أتم لأنه لم يتوطن غيره نهر. (قوله إذا لم يبق له بالأول أهل) أي وإن بقي له فيه عقار قال في النهر: ولو نقل أهله ومتاعه وله دور في البلد لا تبقى وطنا له وقيل تبقى كذا في المحيط وغيره. 

(قوله بل يتم فيهما) أي بمجرد الدخول وإن لم ينو إقامة ط. (قوله ويبطل وطن الإقامة) يسمى أيضا الوطن المستعار والحادث وهو ما خرج إليه بنية إقامة نصف شهر سواء كان بينه وبين الأصلي مسيرة السفر أو لا، وهذا رواية ابن سماعة عن محمد وعنه أن المسافة شرط والأول هو المختار عند الأكثرين قهستاني. (قوله بمثله) أي سواء كان بينهما مسيرة سفر أو لا قهستاني. (قوله وبالوطن الأصلي) كما إذا توطن بمكة نصف شهر ثم تأهل بمنى، أفاده القهستاني. (قوله وبإنشاء السفر) أي منه وكذا من غيره إذا لم يمر فيه عليه قبل سير مدة السفر.(قوله صلى الفرض الرباعي) خبر من في قوله من خرج، واحترز بالفرض عن السنن والوتر وبالرباعي عن الفجر والمغرب.  (قوله وجوبا) فيكره الإتمام عندنا حتى روي عن أبي حنيفة أنه قال: من أتم الصلاة فقد أساء وخالف السنة شرح المنية، وفيه تفصيل سيأتي فافهم

(الدر المختار۔ ج:۲‘ص:۱۳۲ باب صلاة المسافر۔ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144508101872

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں