بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

دو کی جماعت میں تیسرا آجائے تو کیا حکم ہے؟


سوال

اگر  دو  نمازی مسجد  میں  جماعت سے  نماز  پڑھ  رہے  ہوں، اتنے میں تیسرا  شخص  بھی آیا، اب  امام آگے  نکلے  یا  وہاں  ہی نمازمکمل کرے ؟

جواب

اگر دو مرد یعنی ایک امام اور ایک مقتدی جماعت سے نماز پڑھ رہے ہوں، پھر ایک تیسرا شخص آ جائے توپہلے مقتدی کو چاہیے کہ وہ خود پیچھے ہوجائے؛ تاکہ دونوں مل کر امام کے پیچھے صف بنا لیں، اگر مقتدی  پیچھے نہ ہٹے تو وہ تیسرا آدمی اس کو پیچھے کھینچ لے۔ اگر مقتدی کچھ نہ کرے تو  امام کو چاہیے کہ وہ آگے بڑھ جائے اور دونوں مقتدی پیچھے کھڑے ہوجائیں آج کل لوگ مسائل سے واقف نہیں؛  اس لیے اگر گنجائش ہو اور امام کو اندازا ہوجائے کہ ایک اور مقتدی آیا ہے تو امام ہی آگے بڑھ جائے۔

اور اگر جگہ میں وسعت نہ ہو تو دونوں مقتدی امام کے دائیں اور بائیں جانب جس قدر پیچھے ہوسکیں (ایک دو قدم) پیچھے ہوکر کھڑے ہوجائیں۔ 

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 566):

''(ويقف الواحد) ولو صبياً، أما الواحدة فتتأخر (محاذياً) أي مساوياً (ليمين إمامه) على المذهب، ولا عبرة بالرأس بل بالقدم، فلو صغيراً فالأصح ما لم يتقدم أكثر قدم المؤتم لا تفسد، فلو وقف عن يساره كره (اتفاقاً وكذا) يكره (خلفه على الأصح)؛ لمخالفة السنة، (والزائد) يقف (خلفه) فلو توسط اثنين كره تنزيهاً، وتحريماً لو أكثر.

 (قوله: والزائد خلفه) عدل تبعاً للوقاية عن قول الكنز: والاثنان خلفه؛ لأنه غير خاص بالاثنين، بل المراد ما زاد على الواحد، اثنان فأكثر، نعم! يفهم حكم الأكثر بالأولى. وفي القهستاني: وكيفيته أن يقف أحدهما بحذائه والآخر بيمينه إذا كان الزائد اثنين، ولو جاء ثالث وقف عن يسار الأول، والرابع عن يمين الثاني والخامس عن يسار الثالث، وهكذا. اهـ. وفيه إشارة إلى أن الزائد لو جاء بعد الشروع يقوم خلف الإمام، ويتأخر المقتدي الأول، ويأتي تمامه قريباً. (قوله: كره تنزيهاً) وفي رواية: لا يكره، والأولى أصح، كما في الإمداد.

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 568):

"والذي يظهر أنه ينبغي للمقتدي التأخر إذا جاء ثالث فإن تأخر وإلا جذبه الثالث إن لم يخش إفساد صلاته، فإن اقتدى عن يسار الإمام يشير إليهما بالتأخر، وهو أولى من تقدمه لأنه متبوع ولأن الاصطفاف خلف الإمام من فعل المقتدين لا الإمام، فالأولى ثباته في مكانه وتأخر المقتدي، ويؤيده ما في الفتح عن صحيح مسلم «قال جابر سرت مع النبي - صلى الله عليه وسلم - في غزوة فقام يصلي فجئت حتى قمت عن يساره فأخذ بيدي فأدارني عن يمينه، فجاء ابن صخر حتى قام عن يساره فأخذ بيديه جميعا فدفعنا حتى أقامنا خلفه» اهـ وهذا كله عند الإمكان وإلا تعين الممكن. والظاهر أيضا أن هذا إذا لم يكن في القعدة الأخيرة وإلا اقتدى الثالث عن يسار الإمام ولا تقدم ولا تأخر."

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144208201125

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں