بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

دو طلاقوں کے بعد رجوع کرنے کا حکم


سوال

میں نے بیوی کو پہلی طلاق 17/5/2013 کو ان الفاظ "میں نے تمہیں پہلی طلاق دی" کے ساتھ  دی، اس کے بعد میں نے اپنی بیوی کو دوسری طلاق 22/6/2013 کو ان الفاظ "میں نے تمہیں دوسری طلاق دی" کے ساتھ دی اور طلاق کے اگلے دن ہی میں نے اپنی بیوی سے فون پر رجوع کر لیا تھا، پہلی اور دوسری طلاق کے درمیان بیوی حمل سے  نہیں تھی۔

رجوع سے مراد یہ ہے کہ فون پر بیوی سے یہ کہا تھا کہ طلاق نہیں ہوئی ہے، رجوع کے الفاظ زبان سے ادا نہیں کیے تھے۔

اور اس کے بعد سے آج تک 11/10/2021 تک اپنی بیوی سے علیحدہ ہوں، اور کوئی بات چیت اس سے نہیں ہوئی۔

اب سوال یہ ہے کہ کیا میرا نکاح اپنی بیوی سے برقرار ہے یا نہیں؟ اگر نہیں ہے تو پھر کیا صورت ہو گی؟ 

جواب

صورتِ مسئولہ میں سائل نے   اپنی بیوی کو پہلی طلاق مورخہ  2013-5-17 کو دی اور دوسری طلاق 2013-6-22 کو دی تو اس طرح سائل کی بیوی پر دو طلاقِ رجعی واقع ہو گئی تھیں، سائل کو اپنی بیوی کی عدت (پوری تین ماہ واریاں) کے اندر رجوع کا حق حاصل تھا، سائل نے  جب عدت کے اندر رجوع نہیں کیا تو عدت گزرنے سے نکاح ختم ہو گیا، سائل نے دوسری طلاق کے بعد ٹیلی فون پر اپنی بیوی سے جو  خط کشیدہ الفاظ ادا کیے تھے، یہ الفاظ شرعاً رجوع کے نہیں تھے، لہذا 

  عدت ختم ہونے پر   نکاح ختم ہو گیا، اب اگر دونوں ساتھ رہنا چاہتے ہیں تو شرعی گواہان کی موجودگی میں نئے مہر  اور نئے ایجاب و قبول کے ساتھ  تجدیدِ  نکاح کرنا ضروری ہو گا، نکاح کے بعد دونوں کا ساتھ رہنا جائز ہو گا، لیکن آئندہ کے لیے صرف ایک طلاق کا اختیار ہو گا؛ اس لیے خوب احتیاط کی ضرورت ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(و ينكح مبانته بما دون الثلاث في العدة و بعدها بالإجماع) و منع غيره فيها لاشتباه النسب".

(کتاب الطلاق، باب الرجعۃ، 3/ 409، ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144303100475

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں