بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

دو طلاقیں دینے کے بعد کہا: " اگر آپ بات نہیں مانوں گی تو میں تیسری طلاق دے دوں گا"


سوال

 میں نے اپنی بیوی کو 14 ستمبر 2021 کو کہا کہ"میں تمہیں طلاق دیتا ہوں " پھر میں نے عدت میں رجوع کر لیا،پھر 12 نومبر 2021 کو دوبارہ انہی الفاظ سے طلاق دے دی،لیکن پھر میں نے عدت میں رجوع کر لیا،تیسری دفعہ میں نے کہا کہ " اگر آپ بات نہیں مانو  گی تو میں تیسری طلاق دے دوں گا"۔ پوچھنا یہ ہے کہ کیا ہمارا نکاح برقرار ہے؟اور کتنی طلاقیں واقع ہوئی ہیں؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں سائل نے جب اپنی بیوی کو  دو مرتبہ ان الفاظ سے طلاق دی کہ" میں تمہیں طلاق دیتا ہوں"تو ان الفاظ  سے سائل کی بیوی پر دونوں  طلاقیں واقع ہو چکی تھیں،البتہ چونکہ دونوں مرتبہ عدت میں رجوع کر لیا تھا اس لئے سائل کا نکاح برقرار رہا،اس کے بعد تیسری مرتبہ سائل نے جو یہ الفاظ کہے کہ "اگر آپ بات نہیں مانو گی تو میں تیسری طلاق دے دوں گا"تو یہ محض طلاق کی دھمکی ہے،اس سے کوئی طلاق واقع نہیں ،سائل کا نکاح برقرار ہے،سائل اپنا گھر بسا سکتا ہے۔

 البتہ بیوی کو ڈرانے یا کسی کام سے روکنے کے لیے طلاق کی دھمکی کو ذریعہ بنانا درست نہیں ہے، بعض اوقات ایسی دھمکیوں کی وجہ سے ازدواجی زندگی پر بہت بُرے اثرات پڑتے ہیں، نیز سائل  چوں کہ پہلے ہی دو طلاقیں دے چکاہے، اب سائل کے پاس صرف ایک ہی طلاق کا حق باقی ہے ،(جس کے بعد بیوی ہمیشہ کے لئے حرام ہو جائے گی،)اس  لیے بہت زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے؛ کیوں کہ بعض اوقات اگرچہ مقصود طلاق کی دھمکی دینا ہوتا ہے، لیکن غلطی سے یا لاعلمی میں شوہر کی زبان سے ایسے الفاظ نکل جاتے ہیں  جن  سے نیت کے بغیر ہی طلاق واقع ہوجاتی ہے، جو عمر بھر  پچھتاوے کا باعث بن جاتا ہے؛ لہٰذا احتیاط کی جائے۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"قالت لزوجها: من باتو نميباشم، فقال الزوج: مباش، فقالت: طلاق بدست تو است مرا طلاق كن، فقال الزوج: طلاق ميكنم طلاق ميكنم و كرر ثلاثًا طلقت ثلاثًا، بخلاف قوله: كنم؛ لأنه استقبال فلم يكن تحقيقًا بالتشكيك."

(كتاب الطلاق، الباب الثانى ، الفصل الثانى فى الطلاق بالفاظ الفارسية، ج:1، ص:384، ط:مكتبه رشيديه)

وفیہ ایضاً :

"في المحيط: لو قال بالعربية: أطلق لايكون طلاقًا."

(كتاب الطلاق، الباب الثانى ، الفصل الثانى فى الطلاق بالفاظ الفارسية، ج:1، ص:384، ط:مكتبه رشيديه)

بدائع الصنائع میں ہے:

"أما الطلاق الرجعي فالحكم الأصلي له هو نقصان العدد ، فأما زوال الملك ، و حل الوطء فليس بحكم أصلي له لازم حتى لا يثبت للحال، وإنما يثبت في الثاني بعد انقضاء العدة، فإن طلقها ولم يراجعها بل تركها حتى انقضت عدتها بانت، وهذا عندنا."

(كتاب الطلاق، فصل في بيان حكم الطلاق (3/ 180)،ط.دار الكتب العلمية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307100724

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں