میری بیٹی کو شادی کے تین سال بعد میرے داماد نے معمولی جھگڑے کے دوران غصے سے دو مرتبہ یہ کہا کہ " میں نے تمہیں طلاق دی،طلاق دی " اور تیسری مرتبہ وہ کہنے والا تھا کہ میری بیٹی کی ساس نے میرے داماد کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا اور اسے کمرے سے نکال دیا، اب میری بیٹی میرے ساتھ میرے گھر میں رہ رہی ہے، اور اس کے ساتھ اس کی ایک بیٹی بھی ہے،اب آیا یہ طلاق ہوئی ہے یا نہیں ؟اور دوبارہ ان کے درمیان نباہ ہوسکتا ہے یا نہیں ؟ اور آئندہ شوہر کی کتنی طلاقوں کا حق حاصل ہوگا ؟ اور عورت عدت کیسے گزارے گی ؟
صورت ِ مسئولہ میں مذکورہ خاتون کے شوہر نے جب اسے یہ الفاظ کہے کہ : " میں نے تمہیں طلاق دی،طلاق دی " اور تیسری مرتبہ طلاق کا جملہ منہ سے واقعی ادا نہیں کیا تھا، تو اس سے دو طلاق رجعی واقع ہو گئیں ،پس مذکورہ واقعہ کے بعد اگر شوہر نے بیوی سے عدت (تین ماہواریوں ) کے دوران زبانی یا عملی طور پر ہمبستری یا بوس وکنار کر کے رجوع کرلیا تو اس سے رجوع ہو گیا تھا ، اس صورت میں نکاح بر قرار رہے گا، اور مذکورہ دونوں افراد کے لئے میاں بیوی کی حیثیت سے ساتھ رہنا جائز ہوگا، البتہ عدت کے دوران اگر ایسا نہیں ہوا تو عدت مکمل ہوتے ہی نکاح ٹوٹ گیا تھا، اس صورت میں تجدید نکاح کے بغیر میاں بیوی کی حیثیت سے ساتھ رہنا جائز نہیں ہوگا۔بہرصورت آئندہ کے لئےشوہر کے پاس صرف ایک طلاق دینے کا حق ہوگا، اگر خدا نخواستہ تیسری مرتبہ بھی یہ الفاظ دہرا دئے توتیسری طلاق بھی واقع ہو جائے گی، اور بیوی حرمت ِ مغلظہ کے ساتھ حرام ہو جائے گی، جس کے بعد شوہر کے لئے مطلقہ بیوی سے رجوع کرنا یا دوبارہ نکاح کرنا حرام ہوگا۔
فتاوی شامی میں ہے :
"(وأقسامه ثلاثة: حسن، وأحسن، وبدعي يأثم به) ... (والبدعي ثلاث متفرقة أو ثنتان بمرة أو مرتين) في طهر واحد (لا رجعة فيه، أو واحدة في طهر وطئت فيه، أو) واحدة في (حيض موطوءة) لو قال والبدعي ما خالفهما لكان أوجز وأفيد."
(قوله والبدعي) منسوب إلى البدعة والمراد بها هنا المحرمة لتصريحهم بعصيانه بحر (قوله ثلاثة متفرقة)،(قوله في طهر واحد) قيد للثلاث والثنتين (قوله لا رجعة فيه) فلو تخلل بين الطلقتين رجعة لا يكره إن كانت بالقول أو بنحو القبلة أو اللمس عن شهوة."
(کتاب الطلاق، ركن الطلاق، ج : 3، ص : 233/232/230، ط : سعید)
وفیہ ایضاً :
"(وفي أنت الطلاق) أو طلاق (أو أنت طالق الطلاق أو أنت طالق طلاقا يقع واحدة رجعية إن لم ينو شيئاأو نوى) يعني بالصدر لأنه لو نوى بطالق واحدة وبالطلاق أخرى وقعتا رجعتين لو مدخولا بها."
(قوله وفي أنت الطلاق أو طلاق إلخ) بيان لما إذا أخبر عنها بمصدر معرف أو منكر أو اسم فاعل بعده مصدر كذلك (قوله يعني بالمصدر إلخ) الأولى ذكره بعد قول المصنف أو ثنتين. (قوله وقعتا رجعيتين) هذا ما مشى عليه في الهداية ويروى عن الثاني، وبه قال أبو جعفر. ومقتضى الإطلاق عدم الصحة، وبه قال فخر الإسلام، وأيده في الفتح. وذكر في النهر أنه المرجح في المذهب (قوله لو مدخولا بها) وإلا بأنت بالأول فيلغو الثاني (قوله أو ثنتين) أي في الحرة (قوله لأنه صريح مصدر) علة لقوله أو ثنتين، يعني أن المصدر من ألفاظ الواحدان لا يراعى فيها العدد المحض بل التوحيد وهو بالفردية الحقيقية أو الجنسية والمثنى بمعزل عنهما نهر."
(کتاب الطلاق، باب صريح الطلاق، ج : 3، ص : 252/251، ط : سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144610101783
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن