بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

دو طلاق کے عدت میں رجوع نہ کرنے کا حکم


سوال

میری بہن کی شادی کو 18 سال  ہو گئے ہیں ،پچھلے 4 سال سے میری بہن اور اس کے شوہر کے ساتھ لڑائی جھگڑے ،مار پیٹ  ہوتے رہتے ہیں ،میری بہن کے تین بچے ہیں ،ایک بیٹی اور دو بیٹے ،12 نومبر 2021ء جمعہ کے دن اسی طرح کے جھگڑے میں میری بہن کے شوہر نے اسے دو طلاق ان الفاظ کے ساتھ دیں کہ :میں نے طلاق دی ،میں نے طلاق دی ،برائے مہر بانی مجھے مشورہ دیا جائے کہ  میری بہن آگے کیا  راہ اختیار کرے  اور اگر دو طلاق ہو گئی ہیں تو کیا ایک طلاق مانی جائے گی ؟یا پھر دو ہی ہوں گی ؟اور اگر ایک دوسرے کے ساتھ رجوع نہ کرے تو کیا تیسری بھی واقع ہو جائے گی؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں سائل کا بیان اگر واقعۃً صحیح اور درست ہے کہ سائل کی بہن کو اس کے شوہر نے مذکورہ جھگڑے کے دوران دو مرتبہ طلاق کے الفاظ کہے ہیں تو ایسی صورت میں    سائل کی بہن پر دو طلاقِ رجعی واقع ہو چکی ہیں، طلاق کے بعد عدت( مکمل تین ماہواریاں اگر حمل نہ ہو ،اگر حمل ہو تو بچہ کی پیدائش تک) گزرنے سے پہلے تک شوہر کو رجوع کرنے کا اختیار ہے، اگر  اس کا شوہر عدت  گزرنے سے پہلے رجوع کرلیتا ہے توسائل کی بہن کا نکاح برقرار رہے گا، لیکن اگر اس کا  شوہر عدت گزرنے سے پہلے رجوع نہیں کرسکا تو  بعد از عدت  نکاح ٹوٹ جائے گا ،پھر دوبارہ رجوع کرنا جائز نہیں ہو گا اور عدت گزرنے کے بعد سائل کی بہن کا کسی بھی دوسری جگہ نکاح کرنا جائز ہو گا ۔

البتہ عدت گزرنے کے بعد  اگرسائل کی بہن اور اس کا شوہر دوبارہ ساتھ رہنا چاہیں تو  دونوں کو دوبارہ نئے سرے سے دو گواہوں کی موجودگی میں نئے مہر  اور نئے ایجاب و قبول کے ساتھ تجدید ِ  نکاح کرناہو گا،رجوع یا تجدید نکاح دونوں صورتوں میں شوہر کو آئندہ کے لیے صرف ایک طلاق کا حق حاصل ہوگا،اس کے بعد آئندہ کبھی تیسری طلاق بھی دیدی تو بیوی حرمتِ مغلظہ کے ساتھ حرام ہو جائے گی ،لہذا آئندہ کے لیے خوب احتیاط کی ضرورت ہے۔

باقی رجوع کا طریقہ یہ ہے کہ شوہر  بیوی سے کہہ دے  کہ :"میں نے  تجھ سے رجوع کیا " تو اس سے رجوع ہو جائے گا ، اگر اس پر دو گواہ بھی موجود ہوں تو بہتر ہو گا۔

الدر المختار مع رد المحتارمیں ہے:

" (هي استدامة الملك القائم) بلا عوض ما دامت (في العدة) ... (بنحو) متعلق باستدامة (رجعتك) ورددتك ومسكتك بلا نية لأنه صريح (و) بالفعل مع الكراهة (بكل ما يوجب حرمة المصاهرة) كمس  (قوله: بنحو راجعتك) الأولى أن يقول بالقول نحو راجعتك ليعطف عليه قوله الآتي وبالفعل ط، وهذا بيان لركنها وهو قول، أو فعل... (قوله: مع الكراهة) الظاهر أنها تنزيه كما يشير إليه كلام البحر في شرح قوله والطلاق الرجعي لا يحرم الوطء رملي، ويؤيده قوله في الفتح - عند الكلام على قول الشافعي بحرمة الوطء -: إنه عندنا يحل لقيام ملك النكاح من كل وجه، وإنما يزول عند انقضاء العدة فيكون الحل قائماً قبل انقضائها. اهـ. ... (قوله: كمس) أي بشهوة، كما في المنح"

(کتاب الطلاق ،باب العدۃ،ج:3،ص:397،ط:سعید)

الدرمع الرد میں ہے:

 "(وينكح مبانته بما دون الثلاث في العدة وبعدها بالإجماع) ومنع غيره فيها لاشتباه النسب".

(کتاب الطلاق ،باب العدۃ،ج:3،ص:409،ط:سعید)

فتح القدیر میں ہے:

"إذا طلق الرجل امرأته تطليقة رجعية أو تطليقتين فله أن يراجعها في عدتها رضيت بذلك أو لم ترض والرجعة أن يقول: راجعتك أو راجعت امرأتي أو يطأها أو يقبلها أو يلمسها شهوة أو ينظر إلى فرجها بشهوة…. ويستحب أن يشهد على الرجعة شاهدين فإن لم يشهد صحت الرجعة"

(کتاب الطلاق،باب الرجعۃ،ج:4،ص:158،159،ط:دار الفکر)

بدائع الصنائع میں ہے:

"فان طلقھا ولم یراجعھا بل ترکھا حتی انقضت عدتھا بانت وھذا عندنا"۔

(کتاب الطلاق،فصل في بيان حكم الطلاق، ج: 3،ص: 180،ط:دار الکتب العلمیۃ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144304100444

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں