بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

دو طلاق کے بعد عدت کا حکم


سوال

ایک شخص نے اپنی بیوی کو ایک طلاق دی اور پھر ایک ماہ بعد رجوع کرلیا، پھر سات آٹھ ماہ بعد ایک طلاق دیدی، اب اُس کے والد کہتے ہیں کہ ان کو الگ رکھو تاکہ ایک دوسرے سے محبت پیدا ہو اور یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ لڑکی عدت کرے۔اب سوال یہ ہے کہ کیا دو طلاق کے بعد عدت ہوتی ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں دو طلاقوں کے بعد بھی عورت پر عدت لازم ہے، اس کی تفصیل یہ ہے کہ  مطلقہ اگر حاملہ ہے تو اس کی عدت وضعِ حمل ہے اور اگر مطلقہ غیر حاملہ ہےتو اس کی عدت تین ماہواریاں ہیں۔ نيز طلاقِ  رجعی کے بعد شوہر  کو بیوی کی عدت (پوری تین ماہواریاں اگر حمل نہ ہو)  میں رجوع کا حق ہے، اگر عدت کے  دوران رجوع کرلیا  دونوں کا نکاح برقرار رہے گا، اور  رجوع کا طریقہ یہ ہے کہ مرد اپنی بیوی سے زبان سے کہہ دے کہ میں نے رجوع کرلیا،اس سے قولی طور پر رجوع ہوجائے گا،اور اگر زبان سے کچھ نہ کہے، بلکہ بیوی سے تعلق قائم کرلے یاخواہش و رغبت سے اسے چھوئے یابوسہ لے لے اس سے بھی رجوع ہوجائے گا، لیکن فعلی رجوع مکروہ ہے۔حاصل یہ ہے کہ قولاً یاعملاً رجوع کرلیناکافی ہے، البتہ قولی رجوع کرنا اوراس پر گواہان قائم کرنا مستحب ہے۔

 اگر  بیوی کی عدت میں رجوع نہیں کیا ، یعنی  طلاق کے بعد  عدت کی تیسری ماہواری گزرگئی تو اس صورت میں   دونوں کا نکاح ختم ہوجائے گا، مطلقہ  دوسری جگہ نکاح کرنے میں آزاد ہوگی۔

         اس کے بعد  اگر دونوں میاں بیوی باہمی رضامندی سے  دوبارہ ایک ساتھ رہنا چاہیں تو شرعی گواہان کی موجودگی میں  نئے مہر کے ساتھ دوبارہ نکاح کرکے  رہ سکتے ہیں ، اور دونوں صورتوں میں  آئندہ کے لیے شوہر کے پاس صرف ایک طلاق کا حق  باقی رہے گا۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(هي استدامة الملك القائم) بلا عوض ما دامت (في العدة) ... (بنحو) متعلق باستدامة (رجعتك) ورددتك ومسكتك بلا نية لأنه صريح (و) بالفعل مع الكراهة (بكل ما يوجب حرمة المصاهرة) كمس.

 (قوله: بنحو راجعتك) الأولى أن يقول بالقول نحو راجعتك ليعطف عليه قوله الآتي وبالفعل ط، وهذا بيان لركنها وهو قول، أو فعل... (قوله: مع الكراهة) الظاهر أنها تنزيه كما يشير إليه كلام البحر في شرح قوله والطلاق الرجعي لا يحرم الوطء رملي، ويؤيده قوله في الفتح - عند الكلام على قول الشافعي بحرمة الوطء -: إنه عندنا يحل لقيام ملك النكاح من كل وجه، وإنما يزول عند انقضاء العدة فيكون الحل قائماً قبل انقضائها. اهـ. ... (قوله: كمس) أي بشهوة، كما في المنح".

(كتاب الطلاق، باب الرجعة، ج:3، ص:397، ط:سعید)

فتاوی شامی  میں ہے:

"(وهي في) حق (حرة) ولو كتابيةً تحت مسلم (تحيض لطلاق) ولو رجعيًّا (أو فسخ بجميع أسبابه) ومنه الفرقة بتقبيل ابن الزوج نهر (بعد الدخول حقيقة، أو حكمًا) أسقطه في الشرح، وجزم بأن قوله الآتي " إن وطئت " راجع للجميع (ثلاث حيض كوامل)".

(كتاب الطلاق، باب العدة، ج:3، ص:504، ط:سعيد)

فتاوی شامی میں ہے:

"(و) في حق (الحامل) مطلقًا ولو أمةً، أو كتابيةً، أو من زنا بأن تزوج حبلى من زنًا ودخل بها ثم مات، أو طلقها تعتد بالوضع، جواهر الفتاوى، (وضع) جميع (حملها).
 (قوله: مطلقًا) أي سواء كان عن طلاق، أو وفاة، أو متاركة، أو وطء بشبهة، نهر".

 (كتاب الطلاق، باب العدة، ج:3، ص:511، ط:سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144410101595

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں