میری شادی کو تقریبا سات سال ہوچکے ہیں، میرا ایک بیٹا بھی ہے جو چھ سال کا ہے۔ میرے شوہر نے دو سال قبل مجھے دو طلاقیں ان الفاظ ’’میں آپ کو طلاق دیتا ہوں، میں آپ کو طلاق دیتا ہوں‘‘ سے دی تھیں اور پھر چھ ماہ تک مجھ سے بالکل الگ رہے اور چھ ماہ کے بعد آئے اور پھر بھی ہم الگ ہی رہتے تھے اور اب تقریبا ایک سال سے وہ دوبارہ غائب ہیں اور وہ نشہ وغیرہ بھی بہت کرتے ہیں۔
میرا سوال یہ ہے کہ کیا اب میں دوسری جگہ نکاح کرسکتی ہوں؟
صورت مسئولہ میں سائلہ کا بیان اگر واقعۃً درست ہے کہ اس کے شوہر نے اس کو دو سال قبل ان الفاظ ’’میں آپ کو طلاق دیتا ہوں، میں آپ کو طلاق دیتا ہوں‘‘ سے دی تھیں اور پھر عدت (اگر حمل نہیں تھا تو پوری تین ماہواریاں ، اور اگر حمل تھا تو بچہ کی پیدائش تک) میں قولی رجوع (یعنی یہ الفاظ کہنا کہ ’’میں رجوع کرتا ہوں‘‘ یا اس طرح کے کوئی اور الفاظ) یا فعلی رجوع (یعنی جسمانی تعلق یا شہوت سے بیوی کو چھونا یا بوسہ دینا وغیرہ) بھی نہیں کیا تھا تو ایسی صورت میں عدت مکمل ہوتے ہی سائلہ کا نكاح اپنے سابقہ شوہر کے ساتھ ختم ہوچکا ہے، سائلہ کسی اور کے ساتھ شرعاً نکاح کرسکتی ہے، لیکن اگر سائلہ اور سابقہ شوہر دونوں ساتھ رہنا چاہتے ہیں تو باہمی رضامندی سے شرعی گواہوں کی موجودگی میں نئے ایجاب و قبول اور نئے مہر کے تقرر کے ساتھ تجدیدِ نکاح کرنا ہوگا، تجدید نکاح کی صورت میں آئندہ کے لئے شوہر کو صرف ایک طلاق کا اختیار ہوگا۔
باقی دوسری جگہ شادی کرنے سے پہلے بہتر یہ ہے کہ سائلہ اپنے شوہر کو تلاش کرکے اس سے تحریری طور پر طلاق لےلے، اگر شوہر کا کچھ معلوم نہ ہوسکے تو کسی متعلقہ قانونی دفتر وغیرہ سے رابطہ کرکے کوئی تحریری دستاویز حاصل کرلے تاکہ آئندہ قانونی دشواری سے محفوظ رہے۔الغرض شرعاً دو طلاقوں کے بعد رجوع نہ ہونے کی صورت میں عدت کے بعد دوسری جگہ نکاح کرنا جائز اور صحیح ہے۔
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"وإذا طلق الرجل إمرأته تطليقةً رجعيةً او تطليقتين فله أن يراجعها في عدتها رضيت بذلك أو لم ترض، كذا في الهداية."
(الباب السادس في الرجعة، 1/ 470، ط: رشيدية)
الدر المختار میں ہے:
"وينكح مبانته بما دون الثلاث في العدة وبعدها بالإجماع."
(الدر المختار مع رد المحتار، 409/3، سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144309101397
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن