بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

دو طلاق رجعی دینے کے چودہ دن بعد دو گواہوں کے سامنے زبانی رجوع کرنے کا حکم


سوال

میں نے اپنی بیوی کو  26 دسمبر  2019 کو لفظِ  طلاق سے دو طلاقیں دی، شریعت کے اعتبار سے میری بیوی کی عدت شروع ہوچکی تھی،  لیکن میری بیوی نے ایک روز بھی  عدت نہیں کی، اور ہم دونوں الگ الگ گھر میں رہتے رہے، پھر  14 دن بعد دورانِ  عدت مؤرخہ   8  جنوری  میں نے اپنی بیوی کی رضامندی کے بغیر دو گواہوں کے سامنے زبانی رجوع کرلیا تھا، رجوع کے الفاظ یہ تھے (میں  ۔۔۔ اپنے پورے ہوش و حواس میں اپنی بیوی  ۔۔۔ سے رجوع کرتا ہوں اور اپنے نکاح میں لیتا اور رکھتا ہوں)  اور  میں نے اپنی بیوی کو موبائل پر میسج کے ذریعہ بتادیا تھا کہ میں نے اسے اپنے نکاح میں لے  لیا ہے اور گواہوں کے سامنے رجوع کرلیا ہے، اب تک طلاق اور رجوع کے بعد سے ہم دونوں میں کوئی میاں بیوی والا رشتہ نہ ہی قائم ہوا ہے اور نہ ہی ہم دونوں ملے ہیں، میری بیوی کہتی ہے کہ میری مرضی کے بغیر رجوع نہیں ہوسکتا ہے، میری عدت کا وقت پورا ہو چکا ہے، ہمارا اب کوئی تعلق نہیں رہا ہے۔ آپ سے پوچھنا یہ ہے کہ کیا ہمارا نکاح ختم ہو چکا ہے یا  اب بھی ہم دونوں میاں بیوی ہی ہیں؟ میں نے صرف دو طلاق دینے کے بعد رجوع کر لیا تھا ؟

جواب

صورتِ  مسئولہ میں اگر واقعتًا  آپ نے دو طلاقیں دینے کے  14 دن  بعد زبانی طور پر رجوع کرلیا تھا جس کے دو گواہ بھی موجود ہیں تو آپ کا نکاح برقرار ہے اور  آپ کی بیوی بدستور آپ کے  نکاح میں ہے، کیوں کہ جب آپ نے لفظِ طلاق کے ساتھ دو طلاقیں دی تو اس سے دو طلاق رجعی واقع ہوگئی تھیں، اور رجعی طلاق چاہے ایک ہو یا دو، اس کے بعد عدت کے اندر اندر شوہر کو رجوع کرنے کا اختیار شریعتِ مطہرہ نے دیا ہے، چاہے بیوی راضی ہو یا راضی نہ ہو ؛ کیوں کہ بیوی کی رضامندی تجدیدِ  نکاح کے  لیے تو ضروری ہوتی ہے، رجوع کرنے کے  لیے بیوی کی رضامندی ضروری نہیں ہوتی، بلکہ  طلاقِ رجعی کی عدت کے اندر  رجوع کا اختیار شریعتِ  مطہرہ نے صرف شوہر کے حوالہ کیا ہے۔

الدر المختار مع رد المحتار (3/ 401 ):

''(وندب إعلامها بها) لئلا تنكح غيره بعد العدة، فإن نكحت فرق بينهما وإن دخل، شمني. (و ندب الإشهاد) بعدلين ولو بعد الرجعة بالفعل (و) ندب (عدم دخوله بلا إذنها عليها) لتتأهب وإن قصد رجعتها لكراهتها بالفعل، كما مر. (ادعاها بعد العدة فيها) بأن قال: كنت راجعتك في عدتك (فصدقته صح) بالمصادقة (وإلا لا) يصح إجماعاً (و) كذا (لو أقام بينة بعد العدة أنه قال في عدتها: قد راجعتها، أو) أنه (قال: قد جامعتها) وتقدم قبولها على نفس اللمس والتقبيل فليحفظ (كان رجعةً)؛ لأن الثابت بالبينة كالثابت بالمعاينة، وهذا من أعجب المسائل حيث لا يثبت إقراره بإقراره بل بالبينة (كما لو قال فيها: كنت راجعتك أمس) فإنها تصح (وإن كذبته) لملكه الإنشاء في الحال''.

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144108200427

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں