میرے شوہر کی ذہنی و جسمانی طبیعت ٹھیک نہیں تھی ،ایک دفعہ رات کے اوقات ان کی طبیعت خراب تھی اور ہمارے درمیان کسی بات میں کچھ ناچاقی بھی ہوئی تھی ،تو میں نے کہا کہ تم مجھے الفاظ دےدو،تو انہوں نے مجھے کہا کہ ’’طلاق ،طلاق‘‘ اس کے بعد تیسری دفعہ کہنا چاہ رہے تھے کہ گلے میں الفاظ اٹک گیا تھا۔قرآن وسنت کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں۔
صورت مسئولہ میں اگر سائلہ کا شوہر اتنے ہوش وحواس میں تھا کہ وہ اپنی اور اپنی بیوی( سائلہ )کے درمیان ہونے والی گفتگو سمجھ رہاتھا،چنانچہ اس نے بیوی (سائلہ) کے مطالبہ پر اس کو یہ الفاظ کہے کہ ’’طلاق،طلاق‘‘ اورتیسری دفعہ طلاق کا لفظ منہ سے نہیں نکالا تو ان الفاظ سے بیوی (سائلہ )پر دو رجعی طلاقیں واقع ہوگئی ہیں۔
سائلہ کے شوہر کے پاس عدت (پوری تین ماہواریاں اگر حمل نہ ہو اور حمل ہوتو بچہ کی پیدائش تک ) کے اندر رجوع کا حق حاصل ہے ،اگر سائلہ کا شوہر عدت کے اندر رجوع کرلے تو نکاح حسب سابق برقرار رہے گا،لیکن اگر عدت میں رجوع نہیں کیا تو عدت گزرنے پر نکاح ختم ہوجائے گا،عدت کے بعد سائلہ دوسری جگہ نکاح کرسکتی ہے،ہاں عدت گزرجانے کے بعد اگر دونوں دوبارہ ساتھ رہنے پر رضامند ہوں تو ازسرنو نئے مہر کے ساتھ گواہوں کی موجودگی میں تجدید نکاح کرسکتے ہیں،دونوں صورتوں (یعنی رجوع یا عدت کے بعد تجدید نکاح) میں شوہرآئندہ کے لیےصرف ایک طلاق کا مالک ہوگا۔
رجوع کرنے کابہتر طریقہ یہ ہے کہ شوہر بیوی کو زبان سے یہ کہہ دے کہ میں تم سے رجوع کرتا ہوں اور اس پر دوگواہ بھی قائم کردے، اگرشوہر حقوق زوجیت ادا کردے اور منہ سے رجوع کا نہ کہے توبھی رجوع ہوجائے گا۔
فتاویٰ ہندیہ میں ہے:
"وإذا طلق الرجل امرأته تطليقةً رجعيةً أو تطليقتين فله أن يراجعها في عدتها رضيت بذلك أو لم ترض".
(كتاب الطلاق، الباب السادس في الرجعة، فصل : فيما تحل به المطلقة وما يتصل به ج : 1، ص : 470 ط : ماجديه)
فتاوی شامی میں ہے :
"(هي استدامة الملك القائم) بلا عوض ما دامت (في العدة) ... (بنحو) متعلق باستدامة (رجعتك) ورددتك ومسكتك بلا نية لأنه صريح (و) بالفعل مع الكراهة (بكل ما يوجب حرمة المصاهرة) كمس.
و في الرد : (قوله: بنحو راجعتك) الأولى أن يقول بالقول نحو راجعتك ليعطف عليه قوله الآتي وبالفعل ط، وهذا بيان لركنها وهو قول، أو فعل... (قوله: مع الكراهة) الظاهر أنها تنزيه كما يشير إليه كلام البحر في شرح قوله والطلاق الرجعي لا يحرم الوطء رملي، ويؤيده قوله في الفتح - عند الكلام على قول الشافعي بحرمة الوطء إنه عندنا يحل لقيام ملك النكاح من كل وجه، وإنما يزول عند انقضاء العدة فيكون الحل قائماً قبل انقضائها. اهـ. ... (قوله: كمس) أي بشهوة، كما في المنح".
(رد المحتار، كتاب الطلاق، باب الرجعة 3/ 397 ط: سعيد)
فتاوی شامی میں ہے :
"(وينكح مبانته بما دون الثلاث في العدة وبعدها بالإجماع) ومنع غيره فيها لاشتباه النسب".
( كتاب الطلاق، باب الرجعة، مطلب في العقد على المبانة 3/ 409 ط: سعيد)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144602101965
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن