بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ایک مرتبہ طلاق دینے کے بعد متعددبار طلاق کی خبردینا


سوال

ایک شخص کی بیوی ناراض ہو کر میکے چلی گئی، شوہر دوسرے شہر میں مقیم ہے، بیوی نے شوہر کو فون کیا کہ  آپ کے گھر میں جو میرا ذاتی سامان ہے،  وہ یہاں ہمارے والدین کے گھر بھیجوا دو، اس پر شوہر نے کہا کہ آپ کو ہمارے گھر سے جانے کا شوق ہے تو خود جاکر لے جاؤ، اگلے دن بیوی سسرال جاکر اپنا سارا سامان لے گئی، پھر والدین کے گھر سے بیوی نے شوہر کو فون کرکے کہا کہ میں اپنا سامان لے کر آئی ہوں، آپ مجھے طلاق دےدیں، شوہر نے جو اب میں کہا کہ "آپ کو طلاق پڑ گئی ہے" اس کے تقریباً دس منٹ بعد بیوی نے پھر فون کرکے کہا  کہ اس طرح سے طلاق نہیں ہوتی،آپ واضح الفاظ میں طلاق دیں، جس پر شوہر نے کہا کہ  "میں نے آپ کو ایک طلاق دی ہے" اس کے تین دن بعد بیوی نے پھر سے شوہر کو فون کیا کہ گاؤں کے سرکردہ افراد کے ذریعے طلاق بھیج دو (ہمارے گاؤں میں طلاق کا یہی طریقہ ہے کہ سرکردہ افراد کو مہر دے کر بیوی کو طلاق کا پیغام پہنچایا جاتاہے) شوہر نے کہا  کہ آپ کو طلاق پڑچکی ہے، ان لوگوں کے ذریعے بھیجنے کی ضرورت نہیں ہے، اس پر بیوی نے کہا  جب آپ گھر آئیں گے تو پھر میں آپ کے گھر آؤں گی، شوہر نے کہا  آپ کے آنے کی ضرورت نہیں ہے، آپ کو طلاق پڑچکی ہے، آپ نہیں آسکتی، اور شوہر نے یہ کہہ کر فون بند کردیا  آپ مجھے معاف کردیں۔

دریافت یہ کرنا ہے کہ بیوی پر کتنی طلاقیں واقع ہوئی ہے؟ اب شوہر کو رجوع کا حق حاصل ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں مذکورہ شخص سے جب بیوی نے اپنا سامان میکے لے جانے کے بعد  طلاق کا مطالبہ کیا کہ: "آپ مجھے طلاق دے دیں" تو شوہر نے جواب میں کہا کہ : "آپ کو طلاق پڑ چکی ہے" تو اسی وقت  مذکورہ شخص کی بیوی پر ایک طلاق رجعی واقع ہوگئی تھی،  اس کے بعد شوہر نےمختلف اوقات میں جو  الفاظ اد اکیے ہیں مثلاً بیوی کے واضح الفاظ میں طلاق مانگنے پر شوہر نے کہا کہ "میں نے آپ کو ایک طلاق دی ہے" اسی طرح بیوی کا گاؤں کے سرکردہ لوگوں کے ذریعے طلاق بھیجنے کے جواب میں شوہر کا کہنا کہ "آپ کو طلاق پڑ چکی ہے وغیرہ" ان الفاظ سے اگر مذکورہ شخص کاپہلے دی گئی طلاق کا خبر دینا مقصود تھا، تو ایسی صورت میں مذکورہ شخص کی بیوی پر ایک طلاق رجعی واقع ہوگئی ہے، مذکورہ شخص کو رجوع کا اختیار حاصل ہے، اگر مذکورہ شخص عدت (اگر بیوی حاملہ نہیں تو تین ماہواریاں اور اگر حاملہ ہے تو بچہ کے پیدائش تک) کے اندر اندر رجوع کرلے، تو نکاح برقرار رہے گا، اور آئندہ کے لیے مذکورہ شخص کوصرف دو طلاقوں کا حق حاصل ہوگا،اور اگر عدت میں رجوع نہیں کیا تو نکاح ختم ہوجائے گا اور بیوی کو دوسری جگہ نکاح کرنے کا اختیار حاصل ہوگا۔

البحرا الرائق میں ہے:

"وصرح في البزازية بأن له ‌في ‌الديانة ‌إمساكها إذا قال أردت به الخبر عن الماضي كذبا، وإن لم يرد به الخبر عن الماضي أو أراد به الكذب أو الهزل وقع قضاء وديانة".

(کتاب الطلاق، ج:3، ص:264، ط:دار الکتاب)

الدرر الحکام میں ہے:

"(وتصح) أي الرجعة فيما دون الثلاث من طلقة وطلقتين وهذا في الحرة، .... (وإن أبت) المرأة عن الرجعة فإن الأمر بالإمساك مطلق فيشمل التقادير.(وندب إعلامها) أي إعلام الزوج إياها بالرجعة لأنه لو لم يعلمها لربما تقع المرأة في المعصية ....(و) ندب (الإشهاد) أيضا احترازا عن التجاحد وعن الوقوع في مواقع التهم لأن الناس عرفوه مطلقا فيتهم بالقعود معها، وإن لم يشهد صحت".

وفیہ ایضاً:

"(الرجعي) من الطلاق (لا يحرم الوطء) لبقاء أصل النكاح ....(ومطلقته) أي مطلقة الرجعي (تتزين) ليرغب الزوج في رجعتها....(‌ينكح) ‌الزوج (مبانته بلا ثلاث في العدة وبعدها) لأن حل المحلية باق لأن زواله معلق بالطلقة الثالثة فينعدم قبلها .....(لا مطلقته بها) أي بالثلاث".

(کتاب الطلاق،باب الرجعۃ، ج:1، ص،384تا386، ط:داراحیاء)

بدائع الصنائع ميں ہے:           

"فإن طلقها ‌ولم ‌يراجعها بل تركها حتى انقضت عدتها بانت".

(کتاب الطلاق،فصل فی بیان حکم الطلاق، ج:3، ص:180، ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307100463

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں