بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

دو طلاق رجعی کے بعد رجوع کا حکم


سوال

میں نے  اپنی بیوی کو  کئی سال پہلے ایک طلاق رجعی دی تھی، مگر پھر عدت ختم ہونے سے پہلے ہم نے آپس میں رجوع کرلیا تھا، لیکن ابھی حال ہی میں بیوی کی نافرمانی اور بدزبانی کی وجہ سے دوسری طلاق میسج کے ذریعہ دی، اس تحریری طلاق کا ایک ماہ گزر چکا ہے ہم نے آپس میں رجوع نہیں کیا۔ یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ میں بیوی کو چھوڑنا نہیں چاہتا، لیکن اس کی بدزبانی اور خودسری کی وجہ سے محض اس کو سدھارنے کے ارادے سے دوسری طلاق دی ہے۔ معلوم یہ کرنا ہے کہ اگر تین ماہ کی مدت کے اندر ہم نے آپس میں رجوع نہیں کیا تو کیا طلاق واقع ہوجائے گی؟ پھر ملاپ کی کیا صورت ہوگی؟

جواب

واضح رہے کہ ایک یا دو طلاق رجعی دینے کی صورت میں دورانِ عدت شوہر کو اپنی بیوی سے رجوع کرنے کا شرعی حق حاصل ہوتا ہے، تاہم اگر طلاقِ بائن یا تین طلاق دی ہوں تو  شرعاً رجوع کا حق شوہر کو نہیں ہوتا، لہذا صورتِ مسئولہ میں  شوہر نے دوسری بار بھی اگر واقعتًا  ایک طلاقِ رجعی ہی دی تھی تو وہ دورانِ عدت رجوع کرسکتا ہے۔

عدت تین ماہواریاں ہیں اگر عورت کو ایام آتے ہوں، اور اگر وہ حمل سے ہو تو اس کی عدت بچہ جننے تک ہے، اور ایام نہ آتے ہوں تب تین ماہ عدت ہے۔

بہرحال دوسری طلاق تو واقع ہوچکی ہے، تین ماہواریاں گزرنے تک رجوع نہ کیا تو  نکاح ختم ہوجائے گا،  دوبارہ میاں بیوی والا تعلق قائم کرنے کے لیے  گواہوں کی موجودگی میں نیا مہر مقرر کرکے دوبارہ نکاح کرنا ہوگا، اور بہرصورت آئندہ ایک طلاق کا حق باقی ہوگا؛ اس لیے احتیاط کی ضرورت ہے، کبھی ایک طلاق دے دی تو آئندہ نہ رجوع کی گنجائش ہوگی، نہ ہی تجدیدِ نکاح کی۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 397):

"(هي استدامة الملك القائم) بلا عوض ما دامت (في العدة) ... (بنحو) متعلق باستدامة (رجعتك) ورددتك ومسكتك بلا نية لأنه صريح (و) بالفعل مع الكراهة (بكل ما يوجب حرمة المصاهرة) كمس.

 (قوله: بنحو راجعتك) الأولى أن يقول بالقول نحو راجعتك ليعطف عليه قوله الآتي وبالفعل ط، وهذا بيان لركنها وهو قول، أو فعل... (قوله: مع الكراهة) الظاهر أنها تنزيه كما يشير إليه كلام البحر في شرح قوله والطلاق الرجعي لا يحرم الوطء رملي، ويؤيده قوله في الفتح - عند الكلام على قول الشافعي بحرمة الوطء -: إنه عندنا يحل لقيام ملك النكاح من كل وجه، وإنما يزول عند انقضاء العدة فيكون الحل قائماً قبل انقضائها. اهـ. ... (قوله: كمس) أي بشهوة، كما في المنح".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 409):

"(وينكح مبانته بما دون الثلاث في العدة وبعدها بالإجماع) ومنع غيره فيها لاشتباه النسب".

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وإذا طلق الرجل إمرأته تطليقةً رجعيةً او تطليقتين فله أن يراجعها في عدتها رضيت بذلك أو لم ترض، كذا في الهداية".

(الباب السادس في الرجعة، ١/ ٤٧٠، ط: رشيدية) 

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144203201572

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں