دوپٹہ عام انداز میں لینا چاہیے یا اسکارف کی طرح، پردے اور دوپٹہ اوڑھنے کے طریقے کے بارے میں شرعا وضاحت فرمائیں؟
واضح رہےکہ عورت چھپی ہوئی اور پوشیدہ رہنے کی چیز ہے۔ اس کے بارے میں شریعت میں حکم ہے کہ وہ اپنے گھر ہی میں رہے اور اپنے آپ کو چار دیواری تک محدود رکھے، البتہ ضرورتِ شرعی یا طبعی کے مواقع میں عورت کے لیے گھر سے باہر کسی بڑی چادر یا اس کے قائم مقام برقعہ سے اپنے پورے جسم کو جس میں چہرہ بھی داخل ہے ڈھانپ کر نکلنے کی اجازت ہے، لہذا صورتِ مسئولہ میں دوپٹہ یااسکارف اگر بڑا ہو تو ایسے طریقے سے لینا چاہیے جس سے پورا جسم چہرہ سمیت چھپ جائے،بصورت دیگر کسی بڑی چادر یا اس کے قائم مقام برقعہ سے اپنے پورے جسم کو جس میں چہرہ بھی داخل ہے ڈھانپنا چاہیئے فتنہ کے خطرہ کے پیشِ نظر عورت پر اپنے چہرے کے ساتھ ساتھ ہاتھوں کو بھی ڈھانپنا ضروری ہے، ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ جب عورتیں کسی ضرورت کے تحت اپنے گھروں سے نکلیں تو انہیں اللہ تعالیٰ نے حکم فرمایا ہے کہ وہ بڑی چادروں کے ذریعہ اپنے سروں کے اوپر سے اپنے چہروں کو ڈھانپ لیں اور صر ف ایک آنکھ کھلی رکھیں اور محمد بن سیرین ؒ فرماتے ہیں کہ میں نے عبیدۃ السلمانی سے اللہ تعالیٰ کے ارشاد : {یدنین علیهن من جلابیبهن} کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے اپنے سر اور چہرہ کو ڈھانپ کر اور بائیں آنکھ کھول کر ا س کا مطلب بتلایا۔
جسم کو چھپانے کے لیے شریعت نے کوئی خاص طریقہ یا کپڑا یا برقعہ کا نمونہ متعین نہیں کیا، لہذا جو چادر یا برقعہ عورت پہنے، اس میں درج ذیل چیزیں ضروری ہیں:
1۔ برقعہ یا چادر ایسی باریک نہ ہو جس سے اندر کے اعضاء ظاہر ہونے لگیں او رجسم کی ساخت واضح ہو، ورنہ ایسا برقعہ،برقعہ کہلانے کا حق دار نہیں، بلکہ یہ برقعہ لوگوں کو اور زیادہ برائی کی دعوت دینے کا ذریعہ اور سبب بنے گا جس کو پہن کر باہر نکلنا ناجائز ہے۔
2۔ ضرورت کے تحت گھر سے باہر نکلنے والی عورتیں اس بات کا بھی اہتمام کریں کہ جو چادر یا برقعہ استعمال کریں وہ ایسا خوبصورت اور عمدہ نہ ہو کہ اس بنا پر لوگوں کو ان کی طرف نظریں اٹھانے کا موقع ملے۔ بلکہ عام معمولی سے برقعہ میں نکلیں۔
3۔ کسی بھی قسم کی زیب و زینت اور مہکنے والی خوشبو لگاکر باہر نکلنے سے سے پوری طرح بچنے کا اہتمام کیا جائے۔
تفسیر ابن کثیر میں ہے:
"قال علي بن أبي طلحة عن ابن عباس أمر الله نساء المؤمنين إذا خرجن من بيوتهن في حاجة أن يغطين وجوههن من فوق رؤوسهن بالجلابيب ويبدين عينا واحدة «2» ، وقال محمد بن سيرين سألت عبيدة السلماني عن قول الله عز وجل: يدنين عليهن من جلابيبهن فغطى وجهه ورأسه وأبرز عينه اليسرى."
(تفسیر ابن کثیر،سورة الأحزاب: تحت الآیة،59،ج:6، ص:425، ط:دار الكتب العلمية)
احکام القرآن للجصاص میں ہے:
"وقوله تعالى: {وقرن في بيوتكن} روى هشام عن محمد بن سيرين قال: قيل لسودة بنت زمعة: ألا تخرجين كما تخرج أخواتك؟ قالت: والله لقد حججت واعتمرت ثم أمرني الله أن أقر في بيتي، فوالله لا أخرج فما خرجت حتى أخرجوا جنازتها وقيل إن معنى: {وقرن في بيوتكن} كن أهل وقار وهدوء وسكينة، يقال: وقر فلان في منزله يقر وقورا إذا هدأ فيه واطمأن به وفيه الدلالة على أن النساء مأمورات بلزوم البيوت منهيات عن الخروج."
(باب الرجل يطلق امرأته طلاقا بائنا ثم يقذفها، في إباء أحد الزوجين اللعان،ج:3،ص:471،ط:دار الكتب العلمية بيروت - لبنان)
احکام القرآن للتھانوی میں ہے:
"ولعك مما تلونا عليك من الآيات وسردنا لك من الروايات عرفت ان للحجاب الشرعى المأمور به فى الكتاب والسنة ثلث درجات ، بعضها فوق بعض فى الاحتجاب والاستتار ، وكلها صدع لها الكتاب والسنة ولا قائل بنسخ شيئى منها،الأولى : حجاب الأشخاص بالبيوت والجدر والخدور والهوادج وأمثالها ، بحيث لا يرى الرجال الأجانب شيئا من أشخاصهن ولا لباسهن وزينتهن الظاهرة ولا الباطنة ، ولا شيئا من جسدهن من الوجه والكفين وسائر البدن،الثانية : الحجاب بالبراقع والجلابيب بحيث لا يبدوشيئى من الوجه والكفين،وسائر الجسد ولباس الزينة ، فلا يرى إلا أشخاصهن مستورة من فوق الرأس إلى القدم ."
(حد الحجاب الشرعی ودرجاتہ وتفصیل أحکامہ،ج:3،ص:454ادارة القرآن والعلوم الإسلامیة)
وفیہ أيضا:
"وأما الدرجة الثانية من الحجاب أعنى خروجهن من البيوت مستورات بالبراقع والجلابيب ، بحيث لا يظهر من أبدانهن شيئ ، فدل على جواز الاكتفاء بها من الكتاب الآية الثالثة مما حررناه ، وهي قوله تعالى : ( يدنين عليهن من جلابيبهن ، الآية على ما مر من تفسيرها المأثور عن ابن عباس رضى اللہ أن تغطى وجهها من فوق رأسها بالجلباب ، وتبدى عينا واحدة ، ومثله عن السدى وعبيدة السلماني . وأيضاً الآية الخامسة ( قل للمؤمنين يغضوامن أبصارهم ، أيضاً تدل على جواز الخروج للنساء وإلا فلم تكن إلى أمرغض البصر للرجال حاجة وكذلك الآية السادسة : ( قل للمؤمنات يغضضن من أبصارهن ، تدل على جواز الخروج من البيوت . كذلك الآية السابعة : ( والقواعد من النساء اللاتى لا يرجون نكاحا فليس عليهن جناح أن يضعن ثيابهن ، الآية فإن المراد بالثياب ههنا - على ما مر من تفسيره عن ابن مسعود رضى الله عنه - هو الجلباب والرداء وغيرها من الثياب الظاهرة التى لا يفضى وضعها لكشف العورة ، فعلم أن جواز كشف الوجه والكفين مقصور بالعجاز دون الشواب ، فلم يجز للشواب كشف الوجه والكفين أيضاً عند الأجانب وأيضاً يدل على جواز الخروج من البيوت مستورة بالجلباب بشرط عدم التطيب والتزين والتبختر فى المشية ، الحديث الرابع ، والثاني عشر ، وما في معناه من قوله عليه الصلواة السلام : ( لا تمنعوا إماء الله مساجد الله » . كذلك الحديث الرابع في حديث سودة رضى الله عنها يدل على جواز الخروج مستورة بالجلباب بشرط الحاجة والضرورة . وكذلك الحديث الخامس من نظر عائشة رضى الله عنها إلى لعب الحبشة والنبي يسترها بالرداءوكذلك الحديث الثامن والثلثون ، والتاسع والثلثون : « ليس للنساء وسط الطريق ، و ليس لهن نصيب فى الطرق إلا الحواشى » يد لان على جواز الخروج من البيوت بشرط عدم الاختلات مع الرجال . وكذلك الحديث العشرون . جاءت امرأة وهى منتقبة تسأل عن ابنها وهو مقتول ) ، وكذلك الحديث الخامس والعشرون : ( لو تركنا هذا الباب للنساء ! ، يدل على جوازه بشرط عدم الاختلاط مع الرجال."
(حد الحجاب الشرعی ودرجاتہ وتفصیل أحکامہ،ج:3،ص:458ادارة القرآن والعلوم الإسلامیة)
فقط واللہ أعلم
فتوی نمبر : 144509102534
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن