بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

دومضاربوں میں سے ایک کا لوگوں کے اموال لے جانے کی صورت میں شرعی حکم


سوال

میرا ایک دوست گارمنٹس کا کام کرتا تھا ،اس کے پاس تجربہ بھی تھا اور اس فیلڈ میں  اس کے لنکس بھی تھے  ، میرے اس سے اچھے تعلقات تھے تو اس نے مجھے انویسٹمنٹ کی آفر کی اور کام کے متعلق سمجھایا، میں نے اس سے کہا کہ ٹھیک ہے پروفٹ  میں  50٪آپ کا اور 50٪میرا ہوگا، اور محنت آپ کی ہوگی ، لیکن میں اس شرط پر پیسے دوں گا کہ آپ مجھے کام سکھائیں گے بھی اور  یہ کہ  جہاں سے کپڑا وغیرہ اٹھائیں گے اور جہاں دِیں گے وہ سب بھی دکھائیں گے، اور لوگوں سے بھی ملوائیں گے ،اس نے حامی بھری اور کام سٹارٹ ہوا، میں نے پیسے انویسٹ کردیئے ،سلسلہ چلتا رہا ایک وقت بعد میرے قریبی دوستوں کو اور رشتےداروں کو پتہ چلاتو  انہوں نے بھی میرے پاس انویسٹ کرنے کی خواہش ظاہر کی، میں نے انہیں  مضاربت کی کنڈیشن بتائی  کہ  پروفٹ کا 50٪آپ کا ہوگا اور 50٪میرےاور میرے دوست کا ہوگا، اور کل کو اگر نقصان ہوجاتا ہے تو میں ذمہ دار نہیں  ہوں گا، سب نے پیسے دینے سے پہلے ان باتوں پر حامی بھری اور پھر پیسے دیئے۔

اب مُختصر یہ ہے کہ میرا دوست میرے سارے پیسے  لے کر بھاگ گیا، اور لوگ اب  مجھ سے مطالبہ کر رہے ہیں، میری اس مسئلے  میں  رہنمائی فرمائیں کہ میں نے صاف بتایا تھا کہ میں ذمہ دار نہیں ہوں گا پھر بھی لوگ مجھ سے مطالبہ کر رہے ہیں  تو اس بارے میں شرعی حکم کیا ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں سائل کے  پاس جو دوسرے لوگوں نے پیسے بطورِ مضاربت کے دیے تھے اور  ان لوگوں کے علم میں یہ بات تھی  کہ  سائل  خود اور دوسراشخص ان پیسوں سے کاروبار کرےگا، اس صورت میں سائل اور وہ  دوسر اشخص   دونوں مضارب تھے، اور مضارب  کی حیثیت  امین کی ہوتی ہے، جس کے لیے  شریعت کا عام  ضابطہ یہ ہے کہ امین اگر  امانت کے مال میں تعدی او ر اور لاپرواہی سے کام نہ لے اور مال ہلاک ہوجائے تو اس پر ضمان نہیں  آتا،اور تعدی کی صورت میں  وہ  ضامن بنتاہے، صورت مسئولہ میں   جب کہ وہ شخص مال لے کر بھاگ چکاہے   جس میں  سائل  اس کے ساتھ شریک نہیں   تھا، سائل   کی حیثیت  امین کی تھی   اور امانت میں  امین کے تعدی نہ  ہونے کی صورت   میں   وہ ضامن نہیں ہوتا اس وجہ سے  صورتِ مسئولہ میں اب ان لوگوں کا  سائل سے اپنے پیسوں کا مطالبہ کرنا شرعاً درست نہیں ،بلکہ وہی شخص ضامن ہے جو مال لے کر بھاگ چکاہے، جب بھی وہ شخص آئے  وہ ان لوگوں کے پیسوں کی واپسی کا ضامن ہے۔

المسوط للسرخسی میں ہے:

"‌المضارب ‌أمين فيما بقي في يده من المال ما لم يأخذه لنفسه، فإذا هلك صار كأن لم يكن."

(ج:22، ص: 106، ط: دارالمعرفة)

شرح المجلہ لسلیم رستم باز میں ہے:

"الوديعة أمانة في يد المودَع، فإذا هلكت بلا تعد منه و بدون صنعه و تقصيره في الحفظ لايضمن، ولكن إذا كان الإيداع بأجرة فهلكت أو ضاعت بسبب يمكن التحرز عنه لزم المستودع ضمانها."

( أحكام الوديعة، رقم المادة:777، ج:1، ص:342، ط:مكتبه رشيديه)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144503102814

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں