بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

دو مسلمان کا آپس میں محبت کرنا


سوال

 دو دوست باہم محبت کرتے ہیں،  اور ساتھ ہی رہتے کھاتے ہیں یعنی اشد درجہ محبت کرتے ہیں ،  اگر کبھی ان بن ہوجائے اور ان میں سے کوئی ایک کھانا نہ کھائے تو دوسرا بھی نہیں کھاتا وغیرہ،  لیکن فحش گوئی و فحش کاری سے دونوں نفرت کرتے ہیں ، یعنی پاک دامن کہا جائے تو الحمد اللہ غلط نہ ہو گا ۔ لیکن یہ تعلق دوسرے دوستوں سے چھپاتے ہیں وجہ یہ ہے کہ دوست تو آپ جانتے ہی ہیں کہ کتنے سعید ہوتے ہیں، پریشان کرتے ہیں جو کہ دوسرے کو اچھا نہیں لگتا ۔ تو کیا یہ دوستی گناہ ہے ؟

  دوسرا یہ کہ  اب اگر ان میں قطع تعلق ہوجائے ، اور ایک چاہتا ہو کہ صلح ہوجائے ،جیسے سابقہ ایام گزرتے تھے ویسے یہ بھی صلح و صفائی سے گزریں،  لیکن دوسرا یہ نہیں چاہتا،  وہ شرط یہ لگاتا ہے کہ بس معمولی تعلق رکھیں گے،  پہلے جیسے (یعنی اگر ایک غصہ ہوجائے تو دوسرے کو بھی قرار نہیں آتا تھا)  تعلق نہیں رکھنا چاہیے،  یعنی اگر سامنا ہوگیا تو سلام کلام ہوجائے ورنہ نہیں، پہلا والا اس بات پہ راضی نہیں ہے،  جس وجہ سے نہ ہی آپس میں بات کرتے ہیں،  نہ ہی ملاقات ، تو کیا یہ بھی  "متھاجران " کے مرتکب ہوں گے  یعنی ان کی بھی مغفرت اور دعائیں قبول نہیں ہوں گی؟ 

جواب

صورتِ مسئولہ میں کسی بھی دومسلمانوں کا آپس میں باین معنیٰ محبت کرنا کہ دونوں اللہ کی رضا  کے  لیے ایک دوسرے کی بھلائی اور خیرخواہی کا ذریعہ بنیں گے نہ صرف جائز ہے بلکہ مطلوب بھی ہے، تاہم مذکورہ تعلق میں اتنی شدت اختیار کرنا کہ ایک شخص کا دوسرے کے بغیر کھانا پینا کام کاج وغیرہ نہ ہوتا ہواور پھر معمولی باتوں پر قطع تعلق بھی ہوتا رہے،  تو اس طرح کے تعلق سے اجتناب کرنا چاہیے،ہر تعلق اعتدال میں رہے، اور علیک سلیک رہےتو یہ حدیث شریف میں مذکور قطع تعلق اور اس پر مذکور وعید کے زمرے میں نہیں آتا۔

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح میں ہے:

"(وعنه) أي: عن أبي هريرة (قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إن الله تعالى يقول يوم القيامة) أي: على رءوس الأشهاد تعظيما لبعض العباد من العباد ( «أين المتحابون بجلالي؟» ) أي: بسبب عظمتي ولأجل تعظيمي، أو الذين يكون التحابب بينهم ; لأجل رضا جنابي وجزاء ثوابي. قال الطيبي: الباء فيه. بمعنى " في " وفيه ما فيه. قال: وخص الجلال بالذكر ; لدلالته على الهيبة والسطوة أي: المنزهون عن شائبة الهوى والنفس والشيطان فالمحبة، فلا يتحابون إلا لأجلي ولوجهي. قلت: ويمكن أن يكون من باب الاكتفاء والتقدير بجلالي وجمالي أي: المتحابون لي أي: في حالتي القبض والبسط، والخوف والرجاء، والمحنة والمنحة، فيفيد دوام تحابيهم".

(کتاب الآداب، باب الحب في الله ومن الله، ج:8، ص:3133، ط:دارالفکر)

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح میں ہے:

"عن أبي أيوب الأنصاري - رضي الله عنه - قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «ولا يحل للرجل أن يهجر أخاه فوق ثلاث ليال يلتقيان فيعرض هذا ويعرض هذا، وخيرهما الذي يبدأ بالسلام ". متفق عليه.»

«لا يحل لرجل أن يهجر» ) بضم الجيم (أخاه) أي: المسلم، وهو أعم من أخوة القرابة والصحابة. قال الطيبي: وتخصيصه بالذكر إشعار بالعلية، والمراد به أخوة الإسلام، ويفهم منه أنه إن خالف هذه الشريطة وقطع هذه الرابطة جاز هجرانه فوق ثلاثة اهـ. وفيه أنه حينئذ يحب هجرانه ".

(کتاب الآداب، باب ما ينهى عنه في التهاجر والتقاطع واتباع العورات، ج:8، ص:3146، ط:دارالفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144504101016

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں