بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

دو مرتبہ”طلاق،طلاق“کہنے کا حکم


سوال

میں نے لڑائی  کے دوران اپنی بیوی کو دودفعہ”طلاق،طلاق“کا لفظ بولا تھا،تقریبا ایک مہینہ ہو گیا ہے،اس کے بعد سے دونوں الگ رہتے ہیں۔اب پوچھنا یہ ہے کہ طلاق ہوئی ہے یا نہیں؟اور دوبارہ رجوع کی کیا صورت ہوگی؟

جواب

صورت مسئولہ میں سائل نے  جب اپنی بیوی کو لڑائی کے دوران دو مرتبہ”طلاق،طلاق“کہا تو اس سے شرعا سائل کی بیوی پر دو طلاق رجعی واقع ہوچکیں،عدت کے ایام(حمل نہ ہوتوتین ماہواری اور حمل کی صورت میں بچے کی پیدائش تک) باقی رہنے کی صورت میں  مطلقہ بیوی سے عدت کے اندر رجوع کر کے ساتھ رہنا جائز  ہے اور آئندہ کے لئے سائل کو صرف ایک طلاق کا حق حاصل ہوگا۔

 رجوع کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ بیوی کو زبان سے یہ کہہ دے کہ میں تم سے رجوع کرتا ہوں اور اس پر دوگواہ بھی قائم کردے، اگرشوہر  حقوق زوجیت  ادا کردے اور منہ سے  رجوع کا نہ کہے توبھی رجوع ہوجائے گا، مگر ایسا کرنا مکروہ ہے۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"متى كرر لفظ الطلاق بحرف الواو أو بغير حرف الواو يتعدد الطلاق وإن عنى بالثاني الأول لم يصدق في القضاء كقوله يا مطلقة أنت طالق أو طلقتك أنت طالق ۔"

(کتاب الطلاق،الفصل الاول فی الطلاق الصریح،ج۱،ص۳۵۶،ط؛دار الفکر)

الدر المختار وحاشیہ ابن عابدین میں ہے:

"‌ولا ‌يلزم ‌كون ‌الإضافة صريحة في كلامه؛ لما في البحر لو قال: طالق فقيل له من عنيت؟ فقال امرأتي طلقت امرأته۔"

(کتاب الطلاق،باب صریح الطلاق،ج۳،ص۲۴۸،ط:سعید)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"(فالسني) أن يراجعها بالقول ويشهد على رجعتها شاهدين ويعلمها بذلك."

(کتاب الطلاق،باب فی الرجعۃ،ج۱،ص۴۶۸،ط:ماجدیہ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307100632

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں