بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

دو ماہ کا حمل ساقط ہونے پر آنے والا خون کا حکم


سوال

ایک خاتون کا دو ماہ کا حمل ضائع ہوجائے اور اس میں دل کی دھڑکن بھی نہیں آئی ہو، درد اور خون جاری ہونے کے باعث ڈاکٹر ان کو حمل ساقط کرنے کی دوا دیتی ہیں جس سے ان خاتون کا حمل ساقط ہو جاتا ہے،  لیکن خون نہیں رکتا،  چار دن کے بعد طبیعت زیادہ خراب ہونے پر دوبارہ ڈاکٹر کو دکھانے جاتی ہیں تو ڈاکٹر ان کی ڈی اینڈ سی (رحم کی صفائی) کردیتی ہیں،  سوال یہ ہے کہ آیا یہ سارا خون حکمًا نفاس ہے یا حیض ہے یا استحاضہ؟ اور ناپاکی کا حکم کب سے لگے گا، آیا پہلی دفعہ خون جاری ہوتے ہی یا حمل اسقاط  کی دوا کے بعد یا صفائی کے بعد؟  اسی طرح پاکی کا کیا حکم ہوگا ؟

جواب

بصورتِ مسئولہ  جب حمل چار مہینے مکمل ہونے سے پہلے محض دو مہینے پر   ضائع ہوگیاہے، تو نفاس کے اَحکام کے اعتبار سے اس حمل کا اعتبار نہیں ہے، اور  اس کے بعد نظر آنے والا خون نفاس  شمار نہیں ہوگا۔ اسی طرح جو خون حمل کے دوران جاری ہوا تھا وہ استحاضہ تھا۔ البتہ حمل گرنے کے بعد جب خون تین دن سے زیادہ آیا ہے، تو اگر   اس سے پہلے ایک کامل طہر  (کم از کم پندرہ دن) گزر چکا ہے  تو یہ خون حیض شمار ہوگا، اور اس صورت میں مذکورہ خاتون  نماز نہیں پڑھ سکتی، حیض کی مدت ختم ہونے کے بعد نماز پڑھناشروع کردے، اور اگر اس سے پہلے ایک کامل طہر نہیں گزرا تو یہ خون استحاضہ (عام بیماری کاخون) ہوگا، اور مذکورہ خاتون کے لیے ہر وقت کے لیے وضو کرکے نماز پڑھنا ضروری ہوگا۔

فتاوی شامی میں ہے:

"نعم، نقل بعضهم أنه اتفق العلماء على أن نفخ الروح لايكون إلا بعد أربعة أشهر أي عقبها كما صرح به جماعة.

والمرئي حيض إن دام ثلاثا وتقدمه طهر تام وإلا استحاضة، ولو لم يدر حاله ولا عدد أيام حملها ودام الدم تدع الصلاة أيام حيضها بيقين ثم تغتسل ثم تصلي كمعذور.

(قوله: والمرئي) أي الدم المرئي مع السقط الذي لم يظهر من خلقه شيء (قوله: وتقدمه) أي وجد قبله بعد حيضها السابق، ليصير فاصلًا بين الحيضتين. وزاد في النهاية قيدًا آخر، وهو أن يوافق تمام عادتها، ولعله مبني على أن العادة لا تنتقل بمرة والمعتمد خلافه، فتأمل. (قوله: وإلا استحاضة) أي إن لم يدم ثلاثا وتقدمه طهر تام، أو دام ثلاثًا ولم يتقدمه طهر تام، أو لم يدم ثلاثًا ولاتقدمه طهر تام."

(مطلب فى أحوال السقط واحكامه، ج:1، ص:302/3، ط:ايج ايم سعيد)

فقط والله أعلم  


فتوی نمبر : 144209201821

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں