بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

دوماہ کا حمل بیماری کی وجہ سے ساقط کرنے کاحکم


سوال

ایک آدمی کے بچوں میں خون کی کمی کی بیماری(تھیلیسیمیا)چلی آرہی ہے ،اب ایک ٹیسٹ آچکا ہے، جس میں تقریبا حمل کے دو ماہ بعد یہ پتہ لگتا ہے کہ اس حمل کے بچے میں مذکورہ بیماری ہے یا نہیں،  تو اب  ماہر ڈاکٹر نے مشورہ دیا ہے کہ اس کو ضائع کرے؛ کیوں کہ پیدا ہونے کے بعد اس کا زندہ رہنا مشکل ہوتا ہے، اور وہ ہر وقت خون دینا وغیرہ جس پر کافی خرچ بھی ہوتا ہے، تو کیا اس آدمی کے لیے مذکورہ بیماری کی موجودگی کی وجہ سے دو ماہ کے بعد یہ حمل ساقط کرنا جائز ہے یا نہیں؟ 

جواب

صورتِ مسئولہ میں  پیدا ہونے والے بچے کوتھیلیسیمیا بیماری  کی وجہ سے ضائع کرنا جائز نہیں ہے، کیوں کہ موت کے بعد اس کا مرنا مشکوک اور احتمالی ہے ، جب کہ ابھی ضائع کرنے سے اس کی زندگی  کے امکانات کو یقینی طور پر ختم  کردیا جائے گا، ایک مشکوک اور محتمل  نقصان سے بچنے کے لیے یقینی نقصان برداشت کرنا  دانش اور عقل مندی کے خلاف ہے، پھر اگر بچے کی پیدائش کے بعد اسے یہ بیماری ہو بھی تو  اخراجات کے ڈر سے اسے ضائع کرنا بھی درست نہیں، قرآن کریم میں غربت، افلاس اور فقر و فاقہ کے اندیشے سے بچوں کو قتل کرنے کی ممانعت ہے,  ارشاد باری تعالیٰ ہے:

"{وَلَا تَقْتُلُوا أَوْلَادَكُمْ خَشْيَةَ إِمْلَاقٍ نَحْنُ نَرْزُقُهُمْ وَإِيَّاكُمْ إِنَّ قَتْلَهُمْ كَانَ خِطْئًا كَبِيرًا(سورۃ الاسراء:31)"

ترجمہ: اور اپنی اولاد کو ناداری کے اندیشے سے قتل مت کرو (کیونکہ) ہم ان کو بھی رزق دیتے ہیں اور تم کو بھی بیشک ان کا قتل کرنا بڑا بھاری گناہ ہے۔(ازبیان القرآن)

الدرالمختار مع ردالمحتار میں ہے:

"وقالوا يباح إسقاط الولد قبل أربعة أشهر ولو بلا إذن الزوج.

(قوله وقالوا إلخ) قال في النهر: بقي هل يباح الإسقاط بعد الحمل؟ نعم يباح ما لم يتخلق منه شيء ولن يكون ذلك إلا بعد مائة وعشرين يوما، وهذا يقتضي أنهم أرادوا بالتخليق نفخ الروح وإلا فهو غلط لأن التخليق يتحقق بالمشاهدة قبل هذه المدة كذا في الفتح، وإطلاقهم يفيد عدم توقف جواز إسقاطها قبل المدة المذكورة على إذن الزوج...ونقل عن الذخيرة لو أرادت الإلقاء قبل مضي زمن ينفخ فيه الروح هل يباح لها ذلك أم لا؟ اختلفوا فيه، وكان الفقيه علي بن موسى يقول: إنه يكره، فإن الماء بعدما وقع في الرحم مآله الحياة فيكون له حكم الحياة كما في بيضة صيد الحرم، ونحوه في الظهيرية قال ابن وهبان: فإباحة الإسقاط محمولة على حالة العذر، أو أنها لا تأثم إثم القتل اهـ. وبما في الذخيرة تبين أنهم ما أرادوا بالتحقيق إلا نفخ الروح."

(كتاب النكاح، مطلب في حكم العزل، ج:3، ص:176، ط:سعيد)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"‌العلاج لإسقاط الولد إذا استبان خلقه كالشعر والظفر ونحوهما لا يجوز وإن كان غير مستبين الخلق يجوز وأما في زماننا يجوز على كل حال وعليه الفتوى كذا في جواهر الأخلاطي وفي اليتيمة سألت علي بن أحمد عن إسقاط الولد قبل أن يصور فقال أما في الحرة فلا يجوز قولا واحدا وأما في الأمة فقد اختلفوا فيه والصحيح هو المنع كذا في التتارخانية."

(كتاب الكرهية، الباب الثامن عشر ، ج:5، ص:356، ط: رشيديه)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144406102150

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں