بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

دو ماہ کا حمل بار بار ضائع کرنا


سوال

 اگر حاملہ عورت جان بوجھ کر شوہر کی اجازت کے بغیر دو ماہ کا حمل دو یا تین مرتبہ ضائع کرے تو شریعت میں کیا سزا ہے اس عورت کے لیے؟

جواب

صورتِ  مسئولہ میں عورت کا بلاعذر  جان کر بار بار حمل ضائع کرنا شرعًا جائز نہیں ہے،عورت گناہ گار ہے اس پر توبہ واستغفار لازم ہے۔ شوہر کو چاہیے کہ عورت کے خاندان  والوں کو بٹھا کر ان سے بات کرے۔

الدر المختار وحاشیہ ابن عابدین میں ہے:

"و في الذخيرة: لو أرادت إلقاء الماء بعد وصوله إلى الرحم، قالوا: إن مضت مدة ينفخ فيه الروح لايباح لها، وقبله اختلف المشايخ فيه، و النفخ مقدر بمائة و عشرين يوماً بالحديث، قال في الخانية: و لاأقول به لضمان المحرم بيض الصيد؛ لأنه أصل الصيد، فلا أقل من أن يلحقها إثم، و هذا لو بلاعذر".

(كتاب الحظر و الإباحة، باب الاستبراء و غيره، ج ۶،ص۳۷۴، ط: سعيد)

وفیہ ایضاً:

"وفي الخانية: قالوا: إن لم يستبن شيء من خلقه لاتأثم، قال – رضي الله عنه -: و لا أقول به إذ المحرم إذا كسر بيض الصيد يضمن؛ لأنه أصل الصيد، فلما كان مؤاخذاً بالجزاء ثمة فلا أقل من أن يلحقها إثم هنا إذا أسقطت بلا عذر، إلا أنها لاتأثم إثم القتل، و لايخفى أنها تأثم إثم القتل لا استبان خلقه وما بفعلها."

(كتاب الجنايات، فصل في الجنين، ج۶،ص۵۹۱، ط: سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307101588

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں