بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 رجب 1446ھ 15 جنوری 2025 ء

دارالافتاء

 

دو کمپنیوں کے درمیان تعمیرات کے باب میں ایک معاہدہ، اور اس کا شرعی حکم


سوال

مسئلہ یہ ہے کہ ایک حکومتی کمپنی (ملی شرکت)نے دوسری پرائیویٹ کمپنی سے اس طرح معاہدہ کیا ہے کہ حکومتی کمپنی اپنی زمین (حکومتی زمین) پر تعمیرات کروانے کے لیے پرائیویٹ کمپنی کے حوالہ کر دیتی ہے، اور پرائیویٹ کمپنی حکومتی زمین پر حکومت کے  نقشہ کے مطابق تعمیراتی کام (مارکیٹ، اور مختلف تعمیرات) مکمل کرتی ہے، اور تعمیر پر  سارا خرچہ پرائیویٹ کمپنی خود سے کرتی ہے، یعنی حکومتی کمپنی اس کوتعمیرات کے لیے پیسے وغیرہ نہیں دیتی، پھر جب مکان، یا پلاٹ وغیرہ  تیار ہوجاتا ہے پھر حکومتی کمپنی کے حوالہ کردیتی ہے، اور حکومتی کمپنی اس  جگہ (مارکیٹ وغیرہ)کو دوسرے لوگوں پر  پرائیویٹ کمپنی کے نمائندہ کی موجودگی میں آگے بیچتی ہے، اور ساتھ ساتھ دستاویزات اور زمین کی اسناد وغیرہ بھی خریدنے والے کے نام کرکے حوالہ کردیتی ہے، البتہ بیچنے میں دونوں کمپنیوں کے درمیان یہ طے ہواہے کہ جتنا خرچہ ہوا ہے اس سے بڑھ کر حکومتی کمپنی یہ جگہ بیچے گی، مثلا 100 ڈالر کا خرچہ ہونے کی صورت میں 120 ڈالر یا اس سے بڑھ کر بیچنے کی حکومتی کمپنی پابند ہوتی ہے، اور فروخت ہونے کی صورت میں حکومتی کمپنی صرف ٪16 فیصد اپنے پاس رکھتی ہے اور بقیہ ٪84 فیصد بنانے والی (پرائیویٹ ) کمپنی کو دیتی ہے، البتہ حکومتی کمپنی یہ  ٪ 16 فیصد خرچہ اور منافع ملا کر مکمل قیمت  سے   لیتی ہے، صرف  منافع سے نہیں لیتی۔

اب پوچھنا یہ ہے کہ کیا اس طرح معاہدہ کرنا شرعا جائز ہے یا نہیں؟ اور حکومتی کمپنی کا یہ   ٪ 16 فیصدمکمل رقم سے منہا  کرکے لینا  شرعاً جائز ہے یا نہیں؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں جب زمین سرکاری کمپنی کی ہے  اور دوسری کمپنی (پرائیویٹ) اپنی رقم سے تعمیرات کرتی ہے، اور تعمیر مکمل ہونے کے بعد وہ حکومتی کمپنی کے حوالہ کرکے اور حکومتی کمپنی پرائیویٹ کمپنی کی اجازت سے آگے لوگوں پر بیچتی ہے تو یہ معاملہ شرعاً درست نہیں ہے،یہ اجارہ فاسدہ کے حکم میں ہے،  ایسی صورت میں زمین اور اس پر ہونے والی تمام تعمیرات حکومتی کمپنی کی ہوگی، البتہ پرائیویٹ کمپنی نے  تعمیر پر  جتنا خرچہ  کیا ہے وہ اپنے خرچہ اور  اجرت مثل (عام کمپنیاں  اس طرح کام کرنے پر جتنی اجرت لیتی ہیں) کی حق دار ہوگی، اور  آئندہ کے لیے یہی معاملہ  درست رکھنے کے لیے پرائیویٹ کمپنی کے لیے ابتداءً  اجرت   کا تعین رقم کے اعتبار سے کرنا  ضروری ہوگا،اور  فیصد کے اعتبار سے  اجرت کی تعیین جہالت کی بنیاد پر درست نہ ہوگی۔

فتاوی شامی میں ہے: 

"(‌عمر ‌دار زوجته بماله بإذنها فالعمارة لها والنفقة دين عليها) لصحة أمرها (ولو) عمر (لنفسه بلا إذنها العمارة له) ويكون غاصبا للعرصة فيؤمر بالتفريغ بطلبها ذلك (ولها بلا إذنها فالعمارة لها وهو متطوع) في البناء فلا رجوع له...

(قوله عمر دار زوجته إلخ) على هذا التفصيل عمارة كرمها وسائر أملاكها جامع الفصولين، وفيه عن العدة كل من بنى في دار غيره بأمره فالبناء لآمره ولو لنفسه بلا أمره فهو له، وله رفعه إلا أن يضر بالبناء، فيمنع ولو بنى لرب الأرض، بلا أمره ينبغي أن يكون متبرعا كما مر."

(مسائل الشتى، 6/ 747، ط: سعيد)

جامع الفصولین میں ہے:

"صل" : دفع إليه أرضاً على أن يبني فيها كذا كذا بيتاً وسمى طولها وعرضها وكذا كذا حجرة على أن ما بني فهو بينهما وعلى أن أصل الدار بينهما نصفان فبناها كما شرط فهو فاسد وكله لرب الأرض وعليه للباني قيمة ما بنى يوم بنى وأجر مثل فيما عمل وهي مسألة الدسكرة بناء يشبه القصر حواليه بيوت يكون للمولك."

(جامع الفصولين، الفصل الثالث والثلاثون أحكام العمارة في ملك الغير، 2/ 161، ط: إسلامي کتب خانه)

فتاوی شامی میں ہے: 

"وفي الأشباه كل قرض جر نفعا حرام فكره للمرتهن سكنى المرهونة بإذن الراهن ...

(قوله كل قرض جر نفعا حرام) أي إذا كان مشروطا كما علم مما نقله عن البحر، وعن الخلاصة وفي الذخيرة وإن لم يكن النفع مشروطا في القرض، فعلى قول الكرخي لا بأس به."

(كتاب البيوع، ‌‌باب المرابحة والتولية، فصل في القرض، 5/ 166، ط: سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144604101176

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں