بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

دوجگہ رہا ئش ہوتو نماز كا حكم


سوال

 میں پاکستانی ہوں اور سعودیہ میں رہتا ہوں میرا مسئلہ یہ ہے کہ  میں نے  دوجگہ اپنی رہائش رکھی ہے ایک بیس کیمپ اور دوسرا سائٹ کیمپ دونوں جگہ میں سات دن سے کم وقت گزارتا ہوں لہذا مہربانی فرمائیں اور بتائیں کہ میری نماز کا کیا حکم ہے کہاں قصر کرونگا کہاں پوری دونوں کیمپوں کے درمیان مسافت 100 کلومیٹر بنتی ہے۔

جواب

صورت مسئولہ میں  سائل    نے سعودیہ میں دوجگہ ہائش رکھی ہے اور دونوں جگہوں میں سے کوئی بھی وطن اصلی نہیں، جبکہ دونوں جگہوں   کے درمیان سو کلو میٹر  کی مسافت ہے اور سائل دونوں جگہوں میں  سات سات دن گزار تا ہے  تو اس صورت میں سائل دونوں جگہوں پر  نماز میں قصر کرے گا،اگر  مذکورہ دونوں جگہوں میں سے کسی ایک جگہ  کبھی پندرہ دن یا اس سے زیا دہ قیام کیا ہو توو ہ جگہ وطن اقامت کہلائے گی ، تو اس صورت میں  جب تک یہ وطن اقامت بمع رہائشی سامان برقرار ہے تب تک جب   بھی وطن اقامت میں  آئے  تو چاہے ایک ہی دن کے لئے آئے، وہ مقیم ہی رہے گا اور پوری نماز پڑھے گا‘ قصر نہیں کرے گا۔

الدر المختار حاشیہ ابن عابدین میں ہے:

"(من خرج من عمارة موضع إقامته)...(قاصدا)...(مسيرة ثلاثة أيام ولياليها)...(صلى الفرض الرباعي ركعتين)."

(کتاب الصلوۃ،باب صلوۃ المسافر،123/2،سعید)

وفیہ ایضا:

"(فلو أتم مسافر إن قعد في) القعدة (الأولى تم فرضه و) لكنه (أساء) لو عامدا لتأخير السلام وترك واجب القصر وواجب تكبيرة افتتاح النفل وخلط النفل بالفرض، وهذا لا يحل كما حرره القهستاني بعد أن فسر أساء بأثم واستحق النار (وما زاد نفل) كمصلي الفجر أربعا (وإن لم يقعد بطل فرضه) وصار الكل نفلا لترك القعدة."

(کتاب الصلوۃ،باب صلوۃ المسافر،128/2،سعید)

تنوير الابصار مع الدرالمختار مىں هے :

"(و)یبطل (وطن الاقامة بمثلہ و) بالوطن الاصلی (و) بانشاء (السفر)."

( کتاب الصلوۃ ،باب صلاة المسافر،132/2،سعيد )

البحر  الرائق میں ہے :

  "ثم بدا له أن لا يتوطن ما قصده أولا ويتوطن بلدة غيرها فمر ببلده الأول فإنه يصلي أربعا؛ لأنه لم يتوطن غيره، وفي المحيط، ولو كان له أهل بالكوفة، وأهل بالبصرة فمات أهله بالبصرة وبقي له دور وعقار بالبصرة قيل البصرة لا تبقى وطنا له؛ لأنها إنما كانت وطنا بالأهل لا بالعقار، ألا ترى أنه لو تأهل ببلدة لم يكن له فيها عقار صارت وطنا له، وقيل تبقى وطنا له؛ لأنها كانت وطنا له بالأهل والدار جميعا فبزوال أحدهما لا يرتفع الوطن كوطن الإقامة يبقى ببقاء الثقل وإن أقام بموضع آخر."

(کتاب الصلوۃ،باب صلوۃ المسافر،136/2،سعید)

بدائع الصنائع میں ہے :

"وینقض بالسفر ایضا‘ لان توطنہ فی ہذا المقام لیس للقرار‘ ولکن لحاجة‘ فاذا سافر منہ یستدل بہ علی قضاء حاجتہ فصار معرضا عن التوطن بہ فصار ناقضا لہ دلالة."

(کتاب الصلاة ،فصل: والکلامہ فی صلاة المسافر،سعید)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144402100311

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں