بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

تراویح کی دو جماعتوں میں فاصلہ ہو تو ایک ہی مسجد میں تراویح کی دو جماعت کا حکم


سوال

میرے محلہ کی مسجد میں رمضان المبارک میں دوسری تراویح کی نماز گزشتہ تین سال سے میرے ذمہ ہے،  لہٰذا میری مسجد کے امام صاحب کا کہنا ہے کہ آپ عشاء کی نماز با جماعت نہ کرائیں، اس سے پہلی جماعت کی اہمیت ختم ہوجاتی ہے، جب کہ پہلی جماعت کا وقت دوسری جماعت سے مختلف ہے. تقریباً 2 گھنٹوں سے زائد ہے،  اب عوام میں اس بات سے انتشار پیدا ہوتا جاراہا ہے اور آے دن سوالات کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم مصروفیت کی وجہ سے دوسری جماعت کا انتخاب کر رہے ہیں تو ہمیں فرض نماز کی جماعت کے ثواب سے محروم کیا جا رہا ہے۔  کیا ایسی صورت میں عشاء کی نماز با جماعت پڑھنے کو بحال کر سکتے ہیں۔ اس مسئلہ کو حل فرماکر ہماری رہنمائی فرمائیں۔

جواب

واضح رہے کہ ایسی مسجد جس میں امام  مقرر ہو اور  جماعت کے اوقات بھی متعین ہوں اور وہاں پانچ وقت کی   نماز باجماعت ہوتی ہو تو ایسی مسجد میں ایک مرتبہ اذان اور اقامت کے ساتھ محلے والوں کے جماعت کے ساتھ نماز ادا کرلینے کے بعد دوبارہ نماز کے لیے جماعت کرانا مکروہِ تحریمی ہے، دوسری جماعت سے لوگوں کے دلوں سے پہلی جماعت کی اہمیت  ختم ہوجائے گی ،  اور جماعت کی نماز   میں جو کثرت  مطلوب ہے، وہ بھی نہ رہے گی۔

روایات میں ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دو فریقوں کے درمیان صلح کے لیے تشریف لے گئے، واپس تشریف لائے تو مسجدِ نبوی میں جماعت ہوچکی تھی، آپ ﷺ نے گھر جاکر گھروالوں کو جمع کرکے جماعت سے نماز ادا فرمائی، جب کہ مسجد میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا ملنا مشکل نہیں تھا، انہیں جمع کرکے دوسری جماعت کرائی جاسکتی تھی۔ اس سے معلوم ہواکہ اگر مسجد میں جماعت (بلاکراہتِ تحریمی) جائز ہوتی تو حضور ﷺ بیانِ جواز کے لیے کچھ صحابہ کرام کے ساتھ مسجد میں دوسری جماعت ادا فرماتے، اسی  طرح مسجد میں ایک دفعہ تراویح ہوجانے کے بعد دوسری تراویح کی جماعت کو فقہائے اکرام نے مکروہ  قرار دیا ہے۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں  نمازی حضرات کو چاہئے کہ  عشاء اور  تراویح کی نماز باری باری پڑھنے کے بجائے ایک ہی جماعت میں ادا کرنے کی ترتیب بنائیں، لیکن اگر کوئی مجبوری ہو تو اس صورت میں دوسری جماعت مسجد میں ادا کرنے کے بجائے مسجد سے باہر کسی جگہ پر ادا کریں۔

فتاوی شامی میں ہے:

" ويكره تكرار الجماعة بأذان وإقامة في مسجد محلة لا في مسجد طريق أو مسجد لا إمام له ولا مؤذن.

(قوله: ويكره) أي تحريماً؛ لقول الكافي: لايجوز، والمجمع: لايباح، وشرح الجامع الصغير: إنه بدعة، كما في رسالة السندي، (قوله: بأذان وإقامة إلخ) ... والمراد بمسجد المحلة ما له إمام وجماعة معلومون، كما في الدرر وغيرها. قال في المنبع: والتقييد بالمسجد المختص بالمحلة احتراز من الشارع، وبالأذان الثاني احتراز عما إذا صلى في مسجد المحلة جماعة بغير أذان حيث يباح إجماعاً. اهـ".

(کتاب الصلاۃ، باب الامامۃ، مطلب فی تکرار الجماعۃ فی المسجد، ج:1، ص: 552، ط: سعید) 

فتاوی ھندیہ میں ہے:

 "‌ولو ‌صلى ‌التراويح ‌مرتين في مسجد واحد يكره، كذا في فتاوى قاضي خان"

(فصل فی التراویح، ج:1،ص:116، ط:دار الفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144408102355

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں