بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

دو جگہ رہائش رکھنے کی صورت میں نماز قصر کے احکام


سوال

بندہ  کی اپنے گاؤں شیخ بابا ضلع مومند میں آباؤ اجداد کی زمین  ہے جس میں کھیت اور رہائش کے لیے گھر بھی موجود ہے جہاں پر ہر تین چار سال بعد بندہ ایک سال رہائش کے لیے اپنی فیملی کے ساتھ سکونت اختیار کرتا ہے اور ایک گھر بندہ کا راولپنڈی میں بھی ہے جہاں باقی کے تین چار سال بندہ اپنی فیملی کے ساتھ رہائش رکھتا ہے۔ بندہ کو اس مسئلے میں درج ذیل چیزیں پوچھنی ہیں:

نمبر ایک : ان دونوں جگہوں میں بندہ کا وطن اصلی کون سا ہوگا ؟

نمبر دو :ان سالوں میں جب بندہ کی رہائش گاؤں میں موجود نہ ہو بلکہ راولپنڈی والے گھر میں موجود ہو اور غمی خوشی میں پندرہ دن سے کم کی نیت ساتھ بندہ کو شرکت کرنی پڑے تو بندہ گاؤں میں قصر کرے گا یا نہیں ؟

نمبر تین : میرے وہ رشتے دار جن کی اپنے گاؤں میں صرف زمین موجود ہو باقی رہنے کے لیے نہ توگھر ہو اور نہ ہی وہ کوچ کرنے کے بعد کبھی گاؤں میں رہنے گئے ہوں ،مستقل طور پر وہ وہاں سے کوچ کرچکے ہوں البتہ غمی خوشی میں شرکت کرتے ہوں تو یہ لوگ پندرہ دن سے کم کی نیت کے ساتھ اپنے گاؤں میں قصر کریں گے  یا نہیں ؟

جواب

فقہاءِ کرام نے وطنِ اصلی کی تعریف یہ کی ہے کہ وہ جگہ جو انسان کی جائے ولادت ہو یا جہاں اس نے شادی کرکے رہنے کی نیت کرلی ہو یا کسی جگہ مستقل رہنے کی نیت کرلی ہو۔ اس تعریف کی رو سےاگر کسی شخص کی دو یا دوسے زیادہ جگہوں پر عمر گزارنے کی نیت ہو کہ کبھی ایک جگہ کبھی دوسری جگہ، لیکن ان سے مستقل کوچ کرنے کی نیت نہ ہو یعنی اس جگہ سے نیت اور ارادہ کے ساتھ وطنیت ختم نہ کی ہو تو یہ ساری جگہیں اس کے لیے وطنِ اصلی ہیں۔ لیکن اگر کسی جگہ صرف جائیداد ہو  اور وہاں مستقل رہنے کی نیت نہ ہو تو اس جگہ کو وطنِ اصلی نہیں کہا جائے گا۔

مذکورہ بالا تمہید کے بعد آپ کے سوالات کے جوابات درج ذیل ہیں:

۱) چونکہ دونوں جگہ آپ کا گھر ہے اور دونوں جگہ آپ مختلف اوقات میں رہائش پذیر ہوتے ہیں تو دونوں جگہ آپ کے  لیے وطن اصلی شمار ہوں گی اور دونوں جگہ نمازیں پوری پڑھنی ہوں گی۔

۲)گاؤں بھی آپ کے  لیے وطن اصلی ہی ہے؛  لہذا پندرہ دن سے کم کی نیت ہو تب بھی نماز پوری پڑھنی ہوگی۔

۳)جو لوگ گاؤں سے مستقل طور پر کوچ کرچکے ہوں اور گاؤں میں رہنے کی نیت ختم ہوچکی ہو تو ایسی صورت میں وہ جب کبھی گاؤں آئیں اور پندرہ دن سے کم رہنے کی نیت ہو تو وہ مسافر شمار ہوں گے۔

بدائع الصنائع میں ہے:

"ثم الوطن الأصلي یجوز أن یکون واحداً أو أکثر بأن كان له أهل و دار في بلدتین و أکثر ولم یكن من نیة أهله الخروج منها و إن كان هو ینتقل من أهل إلى أهل في السنة."

(۲۸۰/۱)

البحر الرائق میں ہے:

"وفي المجتبى نقل القولين فيما إذا نقل أهله ومتاعه وبقي له دور وعقار ثم قال:” وهذا جواب واقعة ابتلينا بها وكثير من المسلمين المتوطنين في البلاد، ولهم دور وعقار في القرى البعيدة منها يصيفون بها بأهلهم ومتاعهم ،فلا بد من حفظها أنهما وطنان له لا يبطل أحدهما بالآخر."

(۱۴۷/۲)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144309100799

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں