میری دو بیویاں ہیں، بڑی والی میرے ذاتی گھر یعنی میرے والد صاحب کے ساتھ رہتی ہے اور دوسری بیوی کرایہ کے گھر میں رہتی ہے، پہلی بیوی سے پانچ بچے ہیں اور دوسری بیوی سے دو بچے ہیں،میری پہلی بیوی گھر میں ہی رہتی ہے،لیکن دوسری والی ڈاکٹر ہے جو صبح 10بجے سے 2بجے تک کلینک میں ہوتی ہےاور واپسی میں اکثر خود ہی بچوں کو لے کر اپنے گھر چلی جاتی ہے۔میرا معمول یہ ہے کہ میں باری باری رات دیتا ہوں، یعنی جہاں میری رات ہوتی ہے تو میں دوسرے گھر میں رات کا کھانا اور رات کا کچھ حصہ جو متعین نہیں ہے گزارتا ہوں۔اب سوال یہ ہے کہ: کیا شریعت میں دن کے اوقات میں برابری کا حکم ہے؟ کیا کسی بیوی کی طرف سے دن کے اوقات میں زیادہ وقت مانگنا اورشوہر کادینا شرعاً جائز ہے؟ ایک بیوی کا شوہر کو دوسری بیوی سے تعلقات کے لیے کوئی شرط وغیرہ لگانایعنی آپ اس سے زیادہ بات نہ کریں کا شرعی حکم کیا ہے ؟
جس شخص کی دو یا اس سے زائد بیویاں ہوں اس پر لازم ہے کہ وہ اپنی بیویوں کے درمیان رات گزارنے میں برابری کرے، تاہم یہ برابری دن کے اوقات میں ضروری نہیں،دن میں ایک کو دوسری کی مقابلے میں کم یا زیادہ وقت دیا جاسکتا ہے۔ لہذا سائل پر لازم ہے کہ وہ مغرب کے بعد اس بیوی کے پاس رہے جس کے پاس وہ رات گزارنے کی باری ہے، فقہائے کرام لکھتے ہیں کہ اگر ایک بیوی کے پاس مغرب کے بعد آتا ہے اور دوسری بیوی کے پاس عشاء کے بعد آتا ہے تو وہ برابری کرنے والا نہیں ہے،کسی بیوی کے لیے جائز نہیں کہ وہ شوہر کو دوسری بیوی سے زیادہ بات کرنے کی شرط لگائے۔
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (3 / 207):
(ويقيم عند كل واحدة منهن يوما وليلة) لكن إنما تلزمه التسوية في الليل، حتى لو جاء للأولى بعد الغروب وللثانية بعد العشاء فقد ترك القسم، ولا يجامعها في غير نوبتها، وكذا لا يدخل عليها إلا لعيادتها ولو اشتد: ففي الجوهرة: لا بأس أن يقيم عندها حتى تشفى أو تموت انتهى، يعني إذا لم يكن عندها من يؤنسها.
و في الرد: (قوله لكن إلخ) قال في الفتح: لا نعلم خلافا في أن العدل الواجب في البيتوتة والتأنيس في اليوم والليلة، وليس المراد أن يضبط زمان النهار، فبقدر ما عاشر فيه إحداهما يعاشر الأخرى بل ذلك في البيتوتة وأما النهار ففي الجملة اهـ يعني لو مكث عند واحدة أكثر النهار كفاه أن يمكث عند الثانية ولو أقل منه بخلافه في الليل نهر
فقط و الله أعلم
فتوی نمبر : 144108201977
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن